Pages

Saturday, November 13, 2010

هذا الحديث رواه الإمام أحمد وأبو داود والنسائي والبيهقي وغيرهم عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( أقيلوا
ذوي الهيئات عثراتهم إلا الحدود ) وله طرق كثيرة لا تخلو من مقال ، ولكنه بمجموعها يكون حديثاً حسنا
" اچھى خصلتوں اور اوصاف حميدہ كے مالك افراد كى غلطيوں سے تجاوز كرو، ليكن حدود ميں نہيں " ً

کیا خضر علیہ السلام ابھی تک دنیا میں زندہ ہیں

پہلی دلیل :
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان کا ظاہر :
{ آپ سے قبل ہم نے کسی انسان کوبھی ہیشگی نہیں دی ، کیا اگرآپ فوت ہوگۓ تووہ ہمیشہ کے لیے رہ جائيں گے } الانبیاء ( 34 ) ۔
دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے اللہ اگر تواہل اسلام کی اس چھوٹی سی جماعت کوہلاک کردے گا توزمین میں تیری عبادت نہیں ہوگي ) صحیح مسلم ۔
تیسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ زمین پرجو بھی آج کی رات موجود ہے وہ سوبرس بعد باقی نہیں رہے گا ۔
توبالفرض اگر اس وقت خضر علیہ السلام زندہ بھی تھے تواس سوبرس سے زيادہ زندہ نہیں رہے ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما نے بیان کیا کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائ‏ اورسلام پھیرنے کے بعد فرمانے لگے :
تم اپنی آج کی اس رات کویاد رکھو ، بلاشبہ جوبھی آج روۓ زمین پرموجود ہے وہ سوبرس بعد اس زمین پر باقی نہیں رہے گا ۔
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کوسمجھنے میں غلطی لگ گئ جس میں وہ اس سوبرس کے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ فرمایا کہ جوآج اس زمین پرزندہ ہے وہ سوبرس بعد زندہ نہیں رہے گا ، اس سے مراد تویہ تھا کہ وہ صحابہ کادورگزر جاۓ گا ۔۔۔ ۔
چوتھی دلیل :
اگرخضرعلیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے تک زندہ ہوتے توپھروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں ہوتے اوران کی مدد وتعاون کرتے اوران کے ساتھ مل کر جھاد وقتال کرتے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب جن وانس کی طرف مبعوث کیے گۓ ہیں ۔
واللہ اعلم .
دیکھیں اضواء البیان للشنقیطی رحمہ اللہ ( 4 / 178- 183 ) ۔

زوجات سلیمان علیہ السلام کی تعداد

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتےہیں :
سلیمان بن داود علیہم السلام نے کہا کہ آج رات میں سو عورتوں کے پاس جاؤں گا ، ہرعورت ایک بچہ جنے گی جو اللہ تعالی کے راستے میں قتال کرے گا ، توفرشتے نے کہا ان شاءاللہ کہہ لو ، توانہوں نے نہ کہا اوران شاءاللہ کہنابھول گۓ تواس رات سب کے پاس گۓ توان میں سے کسی نےبھی کچھ نہ جنا صرف ایک نے آدھا بچہ جنا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر وہ ان شاءاللہ کہہ لیتے تو ایسا نہ ہوتا اور ان کی ضرورت کوپورا کرنے کا باعث بن سکتا تھا ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5242 ) ۔

آدم علیہ السلام کے بیٹوں کی شادی

شرا‏ئع کے مختلف ہوجانے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں لیکن اصول اورعقائد نہیں بدلتے جو کہ سب شریعتوں میں ثابت ہیں ۔
تواگر سلیمان علیہ السلام کی شریعت میں مجسمے بنانے جائز تھے توہماری شریعت میں یہ حرام ہیں ، اوراگر یوسف علیہ السلام کی شریعت میں سجدہ تعظیم جائز تھا توہماری شریعت میں حرام ہے ، اورجب معرکوں میں حاصل ہونے والی غنیمت ہم سے پہلے لوگوں پرحرام تھی توہمارے لیے حلال ہیں ۔
اور اگرہمارے علاوہ دوسری امتوں کا قبلہ بیت المقدس تھا توہمارا قبلہ بیت اللہ ہے ، اور اسی طرح اور اشیاء بھی توآدم علیہ السلام کی شریعت میں بہن بھائيوں کا آپس میں نکاح وشادی کرنا جائز تھا لیکن اس کے بعدوالی سب شریعتوں میں حرام ، ذیل میں ہم اس مسئلہ کی وضاحت حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی سے پیش کرتے ہیں ۔
حافظ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے لیے یہ مشروع کیا تھا کہ وہ اپنی اولاد میں سے بیٹی اور بیٹے کی آپس میں شادی کردیں اس لیے یہ حالات کی ضرورت تھی ، لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کے ہردفع ایک بیٹا اورایک بیٹی اکٹھے پیدا ہوتے تھے تواس طرح وہ ان کے ساتھ شادی کرتے جوان کے علاوہ دوسری دفعہ پیدا ہوتے ۔

آدم علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کتنے سال کا وقفہ ہے

عیسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ سوبرس کی مدت ہے ۔
آدم اورنوح علیہم السلام کے درمیان مدت دس صدیاں
اسے ابن حبان نے صحیح ابن حبان ( 14 / 69 )
نوح اورابراھیم علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہزاربرس
اورباقی یہ ہے کہ ان جیسے امورمیں بالجزم کہنا اوران جیسے امورمیں بحث کرنا کوئ ایسا کام نہیں کہ جس سے اللہ تعالی کی عبادت ہوتی ہواور اللہ تعالی نے ہمیں اس کے کرنے کا حکم دیا ہے اورنہ ہی اس پرعمل کرنا ضروری ہے

انسان لمبے قدمیں پیدا کیاگيا توابھی تک اس کا قد کم ہورہا ہے

انسان لمبے قدمیں پیدا کیاگيا توابھی تک اس کا قد کم ہورہا ہے
کیا آدم علیہ السلام کے زمانے میں انسان چھوٹے قدکا تھا توپھرآہستہ آہستہ لمباہوتا رہا یہ اس برعکس تھا ؟
الحمد للہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوساٹھ ہاتھ لمبا پیدا فرمایا تھا پھر اس کے بعد تدرج کے ساتھ آہستہ آہستہ اس میں کمی ہوتی گئ حتی کہ جتنا قدآج ہے اس پرٹھراؤ پیدا ہوگيا اور اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے :
( اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا توان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا توآج تک اس میں کمی ہورہی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3326 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2841 ) ۔

اس وقت جوبندر اورخنزیر ہیں کیایہ مسخ شدہ بشرہیں

اس وقت موجود بندراور خنزیر یہ ان میں سے نہیں جو کہ پہلی امتوں میں سے مسخ کيۓ گۓ تھے اس لیے کہ اللہ تعالی جسے مسخ کردے اس کی نسل ہی نہیں چلاتا ، بلکہ وہ اسے مسخ کرنے کے بعد بلاک کردیتا ہے اور اس کی آگے نسل نہیں بناتا ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بندر اور خنزیر وہی انہیں میں سے ہیں جنہیں مسخ کیا گيا تھا ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بلاشبہ اللہ عزوجل مسخ کیۓ گۓ کی نسل نہیں بناتا اور نہ ہی اس کی کوئ‏ اولاد ہوتی ہے ، اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2663 ) ۔ عقب کا معنی اولاد ہے
امام نووی رحمہ اللہ تعالی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے )
یعنی بنی اسرائیل کے مسخ ہونے سے قبل ہی بندر اور خنزیر موجود تھے ، تویہ اس پردلالت کرتی ہے کہ یہ مسخ سے نہیں ہیں ۔ ا ھـ

کیا ابلیس کی اولاد ہے

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی مندرجہ ذیل آیت کی تفسیر میں کرتے ہوۓ کہتے ہیں :
{ کیا تم اسے اوراس کی اولاد کومجھے چھوڑ کراپنا دوست بنا رہے ہو حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے } الکہف ( 50 ) ۔
اس آیت میں اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ (اس کی اولاد کو ) اس بات کی دلیل ہے کہ شیطان کی اولاد ہے ،

سب سے پہلے

سب سے پہلے اللہ تعالی نے عرش پیدا فرمایا اور آسمان پیدا کرنے کے بعد عرش پرمستوی ہوگیا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اوروہ اللہ ہے جس نے آسمان وزمین کوچھ یوم میں پیدا فرمایا اوراس کا عرش پانی پر تھا ، تاکہ وہ تمہیں آزماۓ کہ تم میں سے اچھے عمل کون کرتا ہے } ھود ( 7 ) ۔
اورقلم کے متعلق تواس حدیث میں اس بات کا تو کہیں ذکر نہيں کہ قلم سب سے پہلے پیدا کی گئ ہے بلکہ حدیث کا معنی تو یہ ہے کہ قلم پیدا کرتے ہی اللہ تعالی نے اسے ہر چيزکی تقدیر لکھنے کا حکم دیا ۔
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تووہ بھی دوسروں کی طرح بشر ہیں جو اپنے باپ عبداللہ بن عبدالمطلب کے پانی سے پیدا ہوۓ ،توپیدائش کے اعتبار سے انہیں بشریت پرکوئ امتیاز حاصل نہیں ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متعلق خود فرمایا ہے کہ :

حلاج

حلاج کا نام حسین بن منصور الحلاج اور کنیت ابومغیث ہے۔
انڈیا میں جادو سیکھا اوریہ بہت ہی حیلے اوردھوکہ باز تھا
عام مستشرقین ( وہ کافر جومسلمانوں کا لبادہ اوڑھے ہوۓ ہیں ) کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اسے مظلوم سمجھتے ہيں کہ اسے قتل کردیاگیا ، اور اس کا سبب اس کا وہ عیسا‏ئ کلام اورتقریبا انہی کا عقیدہ ہے جس کا اعتقاد رکھتا تھا ، اس کے عقیدہ کا بیان آگے چل کر ذکر کیا جاۓ گا ۔
بغداد میں اسے زندیق اور کافر ہونے کی بنا پرجس کا اس نے خود بھی اقرار کیا تھا 309 ھ میں قتل کردیا گیا ۔
اوراس وقت کے علماء کرام نے اس کے قتل پراجماع کرلیا تھا کہ اس کے کفافراورزندیق ہونے کی بنا پریہ واجب القتل ہے ۔
اب آپ کے سامنے اس کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھرا :
1 - نبوت کا دعوی :
اس نے نبوت کا دعوی کیا حتی کہ وہ اس سے بھی اوپر چلا گیا اور پھر وہ یہ دعوی کرنے لگا یہ وہ ہی اللہ ہے ، ( نعوذباللہ )
2 - حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتا تھا یعنی اللہ تعالی اس میں حلول کرگيا ہے تووہ اوراللہ تعالی ایک ہی چیز بن گۓ ہیں ، اللہ تعالی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔
3 - قرآن جیسی کلام بنانے کا دعوی :
حلاج نے ایک قاری کوقرآن مجید پڑھتے ہوۓ سنا توکہنے لگا اس طرح کی کلام تومیں بھی بنا سکتا ہوں ۔
4 - کفریہ اشعار :
اس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے :
اللہ تعالی کے متعلق لوگوں کے بہت سارے عقیدے ہیں ، میں بھی وہ سب عقیدے رکھتا ہوں جو پوری دنیا میں لوگوں نے اپنا رکھے ہیں ۔
5 - ارکان اورمبادیات اسلام کے مخالف کلام :
حلاج نے ایسی کلام کی جو کہ ارکان اورمبادیات اسلام کوباطل کرکے رکھ دیتی ہے یعنی نماز ، روزہ اورحج اورزکاۃ کوختم کرکے رکھ دے ۔
اللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی راہنمائ کرنے والا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .

العقيقة متى ؟

والراجح من تلك الأقوال : أن العقيقة تستحب في اليوم السابع من ولادة المولود ، وأنه إن فات ذلك اليوم : فتُذبح في أي يوم ؛ لضعف الحديث الوارد في كونها تُذبح في اليوم الرابع عشر ، والواحد والعشرين ، إن فات اليوم السابع ، وأن ذبحها متعلق بالولادة ، فتجوز قبل السابع وبعده ، وهو قول الشافعية والحنابلة - كما سبق - ، وهو ما رجحه ابن القيم رحمه الله ، ووافقه عليه علماء اللجنة الدائمة .
قال ابن القيم – رحمه الله - :
والظاهر : أن التقييد بذلك – أي : اليوم السابع - استحباب وإلا فلو ذبح عنه في الرابع أو الثامن أو العاشر أو ما بعده : أجزأت .
" تحفة المودود بأحكام المولود " ( ص 63 ) .