Thursday, June 28, 2012
Wednesday, June 27, 2012
عشرخطط لتدمير الإسلام
|
Tuesday, June 26, 2012
Sunday, June 24, 2012
Thursday, June 14, 2012
Tuesday, June 12, 2012
خوشی کے آنسو
"اللہ کی قسم اُس دن سے پہلے میں نے یہ نہیں سمجھا تھا کہکوئی خوشی کی وجہ سے روتا ہے یہاں تک کہ میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس دن روتے ہوئے دیکھا" (سيرة ابن هشام)۔
یہ وہ جملہ ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت کہا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰعنہ ہجرتِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھاپنی تنہا ہمنشینی کی وجہ سے خوشی کی شدّت سے رو پڑے۔خوشی کے غلبہ کے وقت اسی وقت آنسو نکلتے ہیں جب انسانیکی خوشی اس درجہ زیادہ ہو کہ وہ اُس کا گمان یا اس کی امیدنہیں کرسکتا تھا، ایسا ہی اُس وقت ہوا جب حضرتِ ابوہریرہ رضیاللہ تعالی عنہ کی والدہ نے اسلام قبول کیا، اس لئے کہ وہ ان کیہدایت سے مایوس ہو چکے تھے۔ چنانچہ خوشی کی شدّت کےمارے وہ رو پڑے ﴿صحیح مسلم﴾۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت خوش ہوئے تھے جب اللہ تعالی نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سورہءبینہ پڑھ کر سنائیں، چنانچہ خوشی کی شدّت سے وہ روپڑے۔ ﴿صحیح بخاری﴾۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کےبجائے ان کی طرف مائل ہونا پسند کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اُن سے فرمایا:
"زندگی تمہاری زندگی ہے اور موت تمہاری موت ہے"۔ وہ لوگ روپڑےیہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں، اور اُن سب نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری قسمت اور ہماری خوشنصیبی ہیں، ہم اس پر راضی ہیں ﴿النسائی ، احمد﴾۔ تاریخ اور عہدِحاضر میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ اندرونی اور جذباتیتاثر کی وہ انتہائی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے آپ پر قابو نہیںرکھتا اور انتہائی موثر کیفیت کا مظاہرہ کرتا ہے، شاعر کا قول ہے:
وَرَدَ الكِتَابُ مِنَ الحَبِيبِ بِأَنَّهُ سَيَزُورُنِي فَاسْتَعْبَرَتْ أَجْفَانِي
میرے ہمدم کا یہ نامہ ملا کہ وہ میرے پاس آئے گا، اس کے ساتھہی میری آنکھیں تر ہوگئیں۔
طَفَحَ السُّرُورُ عَلَيَّ حَتَّى إِنَّنِي مِنْ عُظْمِ مَا قَدْ سَرَّنِي أَبْكَانِي
میرے رگ و رشے میں خوشی دوڑ گئی یہاں تک کہ میری انتہائیخوشی نے مجھے رُلا دیا۔
Tuesday, June 5, 2012
مشترکہ وجداگانہ خاندانی نظام
آبی
وسائل اور ان کے شرعی احکامات
پانی اللہ تعالیٰ کی بڑی اہم نعمت ہے ۔یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں
سے ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بہت سے احکامات دیئے ، لہٰذا اس کی قدر
کی جائے اوراس کا لحاظ رکھتے ہوئے پانی میں اسراف کی ممانعت کردی گئی اور اس کو
آلودہ کرنے سے سختی سے منع کردیا گیا اور چونکہ سبھی کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اس
لئے اس میں کسی کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی گئی ، نہ ہی ایسی ذخیرہ اندوزی کرنے کی
اجازت دی گئی جو کسی کی
Subscribe to:
Posts (Atom)