Pages

Sunday, July 1, 2012

قصہ اصحاب کہف : ابن ذکاء


اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء کرام کو اس دنیا میں بھیجا اور انبیاء کرام کو مختلف کتب و صحیفے عطا کئے۔ نبی اکرم صلی اللہ 
علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا کیا۔ قرآن مجید رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جہاں واضح احکامات نازل کئے، وہیں انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماضی کے قصوں کے ذریعے بھی ان کی تذکیر کی ہے اور ان کو بتایا ہے کہ ان قصوں میں بڑی عبرت اور نصیحت ہے۔ اب جو کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے اس میں بہت سامان ہے اور اگر کوئی قرآنی قصائص کو محض ماضی کے قصے کہانیاں سمجھ کر سنتا ہے تو اسے پھر کوئی ہدایت نہیں ملتی ہے۔ اس لئے قصص القرآن کو محض قصے کہانیاں سمجھ کر پڑھنے اور سنانے کے بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے ذریعے انسانوں کو کس بات کی ہدایت دی ہے۔
قرآنی قصوں میں سے ایک قصہ’’ اصحاب کہف ‘‘کا بھی ہے ۔اور یہ قصہ سورہ کہف میں بیان کیا گیا ہے۔ اس قصے میں بھی دیکھا جائے تو نہ صرف ایمان والوں کے لئے بلکہ ہر ذی شعور اور باضمیر فرد کے لئے ہدایت موجود ہے۔ یہاں ہم آپ لوگوں کے سامنے اصحاب الکہف کا قصہ مختصراً بیان کریں گے اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں یہ ہدایت دی ہے۔اور اس قصے میں ہمارے لیے کیا اسباق ہیں۔ قصہ سنانے سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا ذکر کیوں کیا ہے؟ مفسرین نے اس کی وجہ نزول یہ بتائی ہے کہ قریش مکہ نے اپنے دو آدمیوں کو مدینے کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ’’ یہودی اہل کتاب ہیں اس لئے ان سے محمد (ﷺ) کی بابت دریافت کرو کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ ‘‘ یہ دونوں افراد مدینے کے یہودی علما ء سے ملے اور نبی اکرم ﷺ کے حالات و اوصاف اور تعلیمات بیان کر کے آپﷺ کے متعلق انکی رائے معلوم کی۔اس کے جواب میں یہودیوں نے ان کوبتایا کہ تم محمد(ﷺ) سے یہ تین سوالات کرنا کہ ’’1 اگلے زمانے کے ان نوجوانوں (اصحاب الکہف ) کا کیا قصہ تھا؟ 2 اس شخص کے بارے میں معلوم کرو جس نے پوری دنیا کا چکر لگایا تھا اور مشرق و مغرب سے ہو آیا تھا۔ 3 جبکہ تیسرا سوال روح کی ماہیت کے متعلق تھا۔ (بعض علماء کے مطابق تیسرا سوال حضرت موسیٰ و خضر علیہ السلام کے متعلق تھا۔اور سورۃ کے مطالعہ سے بھی یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔) یہودیوں نے قریش مکہ کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ یہ ایسی باتیں ہیں جو صرف اللہ کا ایک نبی ہی ان کے متعلق جانتا ہے اگر وہ سچے ہونگے تو ان کے جواب دیں گے۔ قریش مکہ نے واپس آکر یہی سوالات نبی