Pages

Friday, May 18, 2012

مردہ بھائی کی بوٹی

گذشتہ کل جمعرات کو مسجد میں میرا درس تھا ،میں نے کہا : میں آج کے درس کی شروعات دو تازہ خبر سے کروں گا جوخبر سو فیصد صحیح ہے ،اس میں ملاوٹ کا ذرا برابر دخل نہیں ہے :
پہلی خبر ہے : ایک شخص کا سگا بھائی مرگیا، اس نے اپنے مردہ بھائی کی بوٹی بناکر بڑے لطف سے اسے نوچ نوچ کر کھایا ہے اوراسے اپنی غلطی پر ذرا برابر شرمندگی بھی نہیں ہے ۔
دوسری خبر : ایک شخص نے ایسی منحوس حرکت کی ہے کہ اس کے گناہ کی نحوست سے قریبی سمندر کا پورا پانی گدلا ہوگیا ہے ۔
پھر میں نے حاضرین کو وہ تصویر دکھائی جو ابھی آپ کے سامنے ظاہر ہورہی ہے اور کہا : یہ خبر بی بی سی لندن کی نہیں ہے کہ اس میں جھوٹ کا امکان پایاجائے ،نہ ٹاٹمس آف انڈیا کی ہے اور نہ روزنامہ الوطن کی ہے ۔بلکہ یہ خبر ہمیں ایسے ذرائع سے پہنچی ہے جس میں شک کا ادنی امکان نہیں ۔ لیکن قبل اس کے کہ میں آپ کو خبر کے ذرائع کی اطلاع دوں ....دل پر ہاتھ رکھ کر ہمیں جواب دیں .... کیا آپ ایسے انسان کو اپنے معاشرے میں برداشت کریں گے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت ڈھٹائی کے ساتھ کھائے اوردوسرا ایسا کام کرے کہ اس کی نحوست سے سمندرکا پانی گدلا ہوجائے ۔اورکیا آپ کی طبیعت گوارا کرے گی کہ ایسے انسان سے دوستانہ تعلقات رکھے جائیں ....؟ سب نے کہا کہ نہیں اور قطعاً نہیں۔
تب ہم نے غیبت کی بات شروع کی ،جسے لوگوں نے بہت پسند فرمایا : اس کے بعد ہم نے غیبت کی لغوی تعریف کی ،اور اصطلاحی تعریف کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث پیش کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ صحابہ رضوان اللہ  علیہم اجمعین  نے جوا ب دیا ، اللہ اور اسکے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا : تمہارا اپنے کسی بھائی کا اس انداز میں ذکر کرنا جس سے اسکو ناگواری ہو ۔ آپ سے پوچھا گیا ، آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو میں کہہ رہا ہوں [تو  یہ بھی غیبت ہے ]؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر اس میں وہ عیب موجود ہے جس کا ذکر تم کر رہے ہوتو یہی غیبت ہے جو تم نے اسکی کی  ہے  اور اگر اس میں وہ عیب موجود نہیں جو اسکی بابت کہہ رہے ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان باندھا ہے [جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے ] {صحیح مسلم ، ابو داود ، الترمذی}
 پھر قرآن کی آیت پڑھ کر سنائی کہ ولا یغتب بعضکم بعضا .... اورعرض کیا کہ انسان کی طبیعت اس بات سے ابا کرتی ہے کہ وہ کسی مردار کا گوشت کھائے چاہے وہ جانور ہی کیوں نہ ہو ، جبکہ یہاں آدمی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی جارہی ہے اور آدمی بھی کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا سگا بھائی ۔اس سے غیبت کی قباحت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجودافسو س کہ ہماری مجلس کا سب سے لذیذ گوشت آج یہی سمجھا جاتا ہے ۔
ہم نے غیبت کی مذمت کے لیے لوگوں کے سامنے چار احادیث ذکر کیں :
پہلی حدیث : خادم رسول  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل عرب کا یہ دستور تھا کہ سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر  و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے اور ان دونوں  بزرگوں نے اپنی خدمت کیلئے ایک شخص کو ساتھ لے رکھا تھا ، راستے میں کسی جگہ پڑاو ڈالا گیا ، جہاں حضرات شیخین آرام کر نے کیلئے لیٹے اور سو گئے ، امید تھی کہ جب بیدار ہونگے تو کھانا تیار رہے گا ، لیکن ہوا یہ کہ خادم بھی آرام کیلئے لیٹا اور نید لگ گئ ، جب شیخین بیدار ہوئے تو دیکھا کہ خادم نے کھانا تیار نہیں کیا ہے بلکہ وہ بے خبر سورہا ہے ، یہ دیکھ کر ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ، یہ تو ایسا سورہا ہے جیسے کوئی اپنے گھر پر اطمینان سے سوتا ہے چناچہ اسے بیدار کیا اور کہا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر ان سے ہمارا سلام کہو اور عرض کرو کہ ابو بکر وعمر سالن طلب کر رہے ہیں ، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاکر عرضی پیش کرتا ہے تو  آپ نے فرمایا : جاو ان دونوں سے میرا سلام کہو اور بتلادو کہ تم دونوں نے سالن کھا لیا ہے ، خادم نے جب آکر شیخین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا تو وہ  دونوں گھبرا گئے اور آپ کی خدمت میں جلدی سے حاضر ہو کر عرض کرنے لگے:  اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کے پاس سالن کیلئے بھیجا تو آپ نے جواب میں فرمایا  کہ تم دونو نےسالن کھا لیا ہے ، آخر وہ کونسا سالن ہے جسے ہم لوگوں نے کھا یا ہے ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کا گوشت بطور سالن کے استعمال کیا ہے [یعنی تم دونوں نے اسکی غیبت کی ہے ] اس ذات کی قسم جس ہاتھ میں میری جان ہے   میں اسکا گوشت ابھی بھی تمہارے دانتوں میں دیکھ رہا ہوں ، یہ سن کر شیخین نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ہم سے غلطی ہو گئی آپ ہمارے لئے دعائے استغفار کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاو اپنے اس بھائی سے جسکی غیبت کی ہے کہو کہ وہ تمہارے لئے مغفرت کی  دعا کرے ۔ [الصحیحہ للالبانی : 2608]
دوسری حدیث : لما رجم الصحابة ماعزاً رضي الله عنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلين يقول أحدهما لصاحبه: ألم تر إلى هذا الذي ستر الله عليه فلم تدعه نفسه حتى رُجم رَجم الكلب.فسار النبي صلى الله عليه وسلم ثم مر بجيفة حمار فقال: أين فلان وفلان؟ انزلا ، فكلا من جيفة هذا الحمار.فقالا: يا نبي الله من يأكل هذا؟ قال: ما نلتماه من عرض أخيكما آنفاً أشد من أكل منه)) .
تیسری حدیث وعن سعيد بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (( من أربى الربى الاستطالة في عرض المسلم بغير حق))وفي رواية لأبي داود : (( إن من أكبر الكبائر استطالة المرء في عرض رجل مسلم بغير حق)) .
چوتھی حدیث : عن عائشة رضي الله عنها قالت: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم : حسبك من صفية أنها قصيرة ، فقال : ((لقد قلت كلمة لو مزجت بماء البحر لمزجته))
غیبت پر ابھارنے والے اسباب اس کے بعد ہم نے غیبت پر ابھارنے والے اسباب ذکرکیے کہ آخر ایک انسان غیبت کی برائی کو جاننے کے باوجود اس سلسلے میں کوتاہی کرتے ہوئے غیبت کی جرا ت کیوں کرتا ہے ، اس کے چار اسباب بیان کئے ،دین کی کمزوری ،برے دوستوں کی صحبت اور رفاقت ،جلن اور حسد ،سرداری کی خواہش اوراپنے سے بڑے کی چاپلوسی ،دل لگی اور مزاح
 غیبت کا انجام : پھر ہم نے غیبت کے انجام پر گفتگو کی کہ
(۱) اس سے دنیا میں ذلت ورسوائی نصیب ہوتی ہے حدیث ہے عن ابن عر قال : صعد رسول الله المنبر فنادى بصوت رفيع فقال: ((يا معشر من آمن بلسانه ولم يفض الإيمان إلى قلبه ، لا تؤذوا المسلمين ولا تعيروهم ولا تتبعوا عوراتهم ، فإنه من تتبع عورة أخيه المسلم تتبع الله عورته ، ومن تتبع الله عورته يفضحه ولو في جوف رحله)) .
 (۲) قبر میں عذاب ہوتا ہے : إنهما ليعذبان ، وما يعذبان في كبير ، أما أحدهما فيعذب البول ، وأما الآخر فيعذب بالغيبة
(۳) اورجہنم کا عذاب اس کے علاوہ ہے ۔ عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : (( لما عرج بي مررت بقوم لهم أظفار من نحاس يخمشون وجوههم وصدورهم فقلت: من هؤلاء يا جبريل؟ قال : هؤلاء الذين يأكلون لحوم الناس ويقعون في أعراضهم))
غیبت سننے والے کو کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے ؟
اولا - ہمیں اس سے روکنا اور منع کرنا چاہئے  ، نبی کریم – صلى الله عليه وسلم - کی حدیثوں میں ہمیں یہی سبق دیا گیا ہے، چنانچہ ایک بار نبی کریم – صلى الله عليه وسلم - کے پاس کسی شخص کا ذکر ہوا تو انکے بارے میں لوگوں نے کہاکہ [وہ بہت کاہل ہے] جب تک کھانا نہ پیش کیا جائے  کھاتا نہیں اور جب تک اس کی سواری تیار نہ کی جائے سوار نہیں ہوتا، یہ سن کر آپ– صلى الله عليه وسلم - نے فرمایا : تم لوگوں نے اس کی غیبت کی ، صحابہ نے جواب اے اللہ کے رسول ہم نے تو وہی بات کہی ہے جو اس میں پائی جاتی ہے، آپ – صلى الله عليه وسلم - نے فرمایا : غیبت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ تو اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہے- صحيح الترغيب3/78 عن ابن عمرو  نقلا عن الأصفهاني .
ثانیا- ہم اسی  مجلس میں اس شخص کا دفاع کریں جسکی غیبت کی جا رہی ہے اور یہ بہت بڑے اجر کی بات ہو گی، حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من ذب عن لحم أخيه بالغيبة كان حقا على الله أن يعتقه من النار. جو شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے گوشت کا دفاع کریگا[ اسکی غیبت کا جواب دیگا] تو اللہ تعالی پر یہ حق ہے کہ اسے جہنم سے آزاد کردے۔  مسند احمد وطبرانی کبیر۔
ثالثا- اس کی تعریف کرے : امام ابن سیرین کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر انکے پاس کوئی کسی کی برائی بیان کرتا تو اس شخص کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیتے۔ السیر4/615۔
رابعا: اگر ہم یہ نہ کرسکیں یا ہماری بات نہیں سنی جاتی تو ہم وہاں سے چلے جائیں
  غیبت سے کیسے بچیں ؟ اس کے بعد ان وسائل کا ذکر کیا گیا جن کو اپناکر ایک آدمی غیبت سے بچ سکتا ہے جو کچھ یوں تھے
(۱) اللہ کا تقوی اور اس سے حیا کا جذبہ :
(۲) غیبت کے دنیوی واخروی نقصانات کو یاد کرنا ۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے : ا تدرون من المفلس .... ؟ اور حسن بصری کی بابت آتا ہے : إن فلاناً اغتابك، فبعث إليه الحسن رطباً على طبق وقال : بلغني أنك أهديت إلي من حسناتك فأردت أن أكافئك عليها، فاعذرني، فإني لا أقدر أن أكافئك على التمام .
(۳) اپنے عیوب کو یاد کرنا اوراس کی اصلاح میں لگنا جس سے دوسروں کے عیوب خود بخود چھپ جائیں گے ۔
(۴) نیک صحبت : مثل الجلیس الصالح ....
(۵) صالحین کی سیرت کا مطالعہ : ابوعاصم النبیل کہتے ہیں : ما اغتبت مسلما منذعلمت ا ن اللہ حرم الغیبة
(۵) ان سارے علاجوں کے باوجود اگر سدھا رنہ آرہی ہو تو غیبت کرنے پر خود کے لیے سزا مقررکرے ،امام ذہنی نے لکھا ہے : حرملہ کہتے ہیں : میں نے ابن وھب کو فرماتے ہوئے سنا : میں نے نذرمانا کہ جب کسی کی غیبت کروںتو ایک روزہ رکھوں گا ،چنانچہ جب کسی کی غیبت کرتا تو جرمانے کے طور پر ایک روزہ رکھتا پھر نیت کیا کہ غیبت کرنے پر ایک درہم صدقہ کروں گا ،کہتے ہیں : فمن حب الدراہم ترکت الغیبة ، امام ذہبی فرماتے ہیں: ھکذا واللہ کان العلماءوھذا ھو ثمرة العلم النافع ۔
غیبت کب جائز ہے؟
{1} ظلم کی شکایت : ایک  شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور اپنے پڑوسی کی بد سلوکی کی شکایت کرتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاو اور اپنا سامان باہر نکال  کر رکھ  دو ۔ اب جو شخص بھی ادھر سے گزرتا اور سامان باہر رکھنے کی وجہ پوچھتا تو وہ شخص اپنےپڑوسی کی شکایت کرتا لہذا  ہر سننے والا کہتا : اس پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ  اسے رسوا کرے  الحدیث {الادب المفرد بروایت ابوہریرہ}
{2} فتوی کی غرض سے : حضرت ابو سفیان کی بیوی حضرت ھند بنت عتبہ رضی اللہ عنہما خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہتی ہیں : ابو سفیان بخیل آدمی ہیں ، وہ مجھے میرے اور میرے بچوں کا پورا خرچہ نہیں دیتے تو کیا میں ان کے علم کے بغیر انکے مال سے اپنی ضرورت کے مطابق لے سکتی ہوں ؟ آپ  صلی اللہ علیہ سلم نے  انھیں اسکی اجازت دے دی {صحیح بخاری ومسلم بروایت عائشہ}
{3}برائی دور کر نے کیلئے : خلاف شرع کاموں کو روکنے اور برائی کے مرتکب کو راہ راست پر لانے کیلئے  کسی ایسے شخص سے کسی کی برائی کی جاسکتی ہے جو برائی کے روکنے کی طاقت رکھتا ہو یا برائی روکنے پر اسکی مدد کرسکتا ہو -
{4}مسلمانوں کی خیر خواہی اور شروروفتن والوں سے متنبہ کرنے کیلئے : اسی حکم میں حدیث کے راویوں کے عیوب و کمزوریاں ظاہر کرنا بھی ہے ، خطباء  و مولفین کی غلطیوں کا بیان بھی اسی میں داخل ہے ، کسی بدعتی سے متنبہ کرنا بھی اسی حکم میں آتا ہے اور کسی افسر اور والی جو ولایت کا اہل نہ ہو یا اپنی ولایت میں امانت داری سے کام نہیں کرتا اسکی شکایت حاکم اعلی سے کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے ۔
{5}مشورہ کے موقعہ پر : حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں  اور عرض کیا کہ ابو جہم اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے ، اب آپ  ہمیں کس کے پیغام کو قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ؟ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : معاویہ تو مفلس ہیں انکے پاس  مال نہیں ہے  اور ابوجہم {بڑے سخت مزاج کے ہیں } وہ اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے نہیں اتار تے {عورتوں کو بہت مارتے ہیں } البتہ تم اسامہ بن زید سے شادی کر لو {بخاری ومسلم }
{6} فاسق و فاجر  وبدعتی کی غیبت : جیسے کوئی شخص کھلم کھلا اپنے فسق وبدعت کا ارتکاب کرنے والا ہے کوئی علانیہ شراب پیتا ہے ، لوگوں کے مال لے لیتا ہے تو واپس نہیں کرتا ،رشوت چنگی ظلما وصول کرتا ہے وغیرہ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس  اندر آنے کی اجازت چاہی  تو آپ نے فرمایا : اسے اجازت دے دو ، یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے ، پھر جب اندر آیا  تو آپ نے اسکے ساتھ   بہت نرمی سے باتیں کیں {جب وہ چلا گیا تو }میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اسکے بارے میں  یہ سب کچھ کہا اور پھر اسکے ساتھ  اسقدر نرم لہجے میں باتیں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بر ا وہ آدمی ہے جسکے شر سے بچنے کیلئے لوگ اسے چھوڑ دیں ۔ {صحیح  بخاری ، صحیح مسلم }
غیبت سے معافی کیوںکر ممکن ہے ؟
کسی بھی گناہ سے معافی کے لیے توبہ شرط ہے اور قبولیت توبہ کی تین شرطیں ہیں ، گناہ کو ترک کردے ،ندامت کا احساس ہو اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے ، اور اگر اس کا تعلق بندوںکے حقوق سے ہے تو بندے کا حق ادا کرے یا اس سے معافی مانگے ۔ اس لیے غیبت سے معافی کے لیے ان چار شرطوں کو اپنانا نہایت ناگزیر ہے ۔
شک وشبہ کی جگہ سے دوری : مسلمان کو چاہیے کہ شک وشبہ کے اماکن سے دور رہے تاکہ دوسروں کے لیے غیبت کرنے کا سبب نہ بنے ۔ اس سلسلے میں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے رہنمائی ملتی ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ اعتکاف میں تھے ،سیدہ صفیہ آئیں ،آدھی رات کو جب آپ سے رخصت ہونے لگیں تو آپ انہیں الوداع کرنے کے لیے ساتھ میں آئے ،راستے میں دو صحابی سے ملاقات ہوگئی ،جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس دونوں نے تیزی کی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : على رسلكما ، إنما هي صفية بنت حيي ، فقالا: سبحان الله يا رسول الله ، وكبر عليهما. فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ((إن الشيطان يبلغ في الإنسان مبلغ الدم ، وخشيت أن يقذف في قلوبكما شيئاً)) .

No comments:

Post a Comment