Pages

Sunday, December 9, 2018

کیا اصحاب کہف کا کتا جنت میں جائے گا؟ اور وہ کون سے دس جانور ہیں جو جنت میں جائیں گے؟


الحمدللہ:

*علم کی کمی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سی بے بنیاد اور جھوٹی باتیں ایسی پھیلی ہوئی ہیں کہ بار بار ان جھوٹی باتوں کو سن کر اب لوگ انکو سچ سمجھنے لگ گئے ہیں،انہیں جھوٹی باتوں میں سے ایک یہ بات بھی  لوگوں میں بعض غیر معتبر کتابوں میں مذکور ہونے کی وجہ سے مشہور ہوگئی ہے کہ دس قسم کے جانور جنت میں جائیں گے،ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں*

1-حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی
2-حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی
3-حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بچھڑا
4-حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا
5-حضرت موسی علیہ السلام کی گائے
6-حضرت یونس علیہ السلام کی مچھلی
7-حضرت عزیز علیہ السلام کا گدھا
8-حضرت سلمان علیہ السلام کی چیونٹی
9-سلیمان علیہ السلام کا ہد ہد
10-اصحاب کہف کا کتا

*کسی بھی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے کہ دنیاکے یہ مذکورہ حیوانات جنت میں ہوں گے ۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ فلاں فلاں جانور جنت میں جائے گا*

*بلکہ دنیا کے جو جانور ہیں ان میں سے کسی کے بارے میں بھی کسی صحیح حدیث میں جنت میں جانے کا ذکر نہیں ملتا، بلکہ صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے کہ دنیا کے چوپائے اور پرندے کل قیامت میں سب مٹى ہوجائیں گے*

🌹عن أبي هريرةَ قال إنَّ اللهَ يحشرُ الخلقَ كلَّهم كلَّ دابةٍ وطائرٍ وإنسانٍ يقول للبهائم والطيرِ كونوا ترابًا فعند ذلك يقول الكافرُ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا۔
(السلسلة الصحيحة: 4/607)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی (قیامت کے دن) تمام مخلوق ، پورے جانور، پرندے اور انسان کو جمع کرے گا۔ چوپائے اور پرندے سے کہے گا کہ مٹی ہوجاؤ۔ تو اس وقت کافر کہے گا اے کاش! میں بھی مٹی ہوجاتا۔

*اس حدیث سے پتا چلا کہ دنیا کا کوئی حیوان ،جانور پرندہ جنت میں نہیں جائے گا،بلکہ سب قیامت کے دن مٹی ہو جائیں گے*

*جنت کے چند حیوانات :*

البتہ کچھ روایات کی روشنی میں چند قسم کے حیوانات جنت میں ہوں گےاس کا ثبوت ملتاہے ۔ ان میں پرندہ،بیل ،بکری ،اونٹنی اور گھوڑا وغیرہ ہیں

(1) پرندہ كے جنت میں ہونے کی دلیل :

🌹اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ
(الواقعة: 21)
ترجمہ:اور چڑیا کا گوشت جس کو وہ پسند کریں گے
اور
صحیح مسلم میں ہےکہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں۔

🌹فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
أرواحُهم في جوفِ طيرٍ خُضرٍ . لها قناديلُ مُعلَّقةٌ بالعرشِ . تسرحُ من الجنةِ حيث شاءت ثم تأوي إلى تلك القناديلِ
(صحیح مسلم:1887)
ترجمہ: ان (شہیدوں) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں، ان کے لئے قندیلیں ہیں جو عرش سے لٹک رہی ہیں ۔وہ روحیں بہشت میں سے جہاں سے ان کا جی چاہتا ہے میوے کھاتی ہیں پھر ان قندیلوں میں جا کر بسیرا کرتی ہیں۔

(2) جنتیوں کی غذا میں بیل کا گوشت:

🌹مسلم شریف کی لمبی حدیث کا ایک ٹکرا ہے :
يُنْحَرُ لهم ثُوْرُ الجَنَّةِ الذي كانَ يَأْكُلُ مَنْ أَطرافِها (صحيح مسلم: 315)
ترجمہ :نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جنتیوں کے لیے جنت میں چرنے والا بیل ذبح کیا جائے گا (جس کاگوشت انھیں کھلایا جائے گا)۔

(3) جنت میں بکری :
🌹عن أبي هريرة رضي الله عنها قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : صلوا في مراح الغنم وامسحوا رغامها فإنها من دواب الجنة ۔
(صحيح الجامع:3789)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم لوگ بکری کے ٹھکانے میں نماز پڑھو اور اسکی (ناک سے بہنے والی) مٹی صاف کر دو کیونکہ یہ جنت کے حیوانات میں سے ہیں۔

(4)جنت کی اونٹنی:جنت میں اونٹنی بھی ہوگی۔
🌹عن أبي مسعود الأنصاري قال : جاء رجل بناقة مخطومة فقال : هذه في سبيل الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لك بها يوم القيامة سبع مائة ناقة كلها مخطومة .
(رواه مسلم :1892 ) .
ترجمہ : حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی مہار والی اونٹنی لیکر آیا اور کہا یہ اللہ کی راہ میں ہے ۔ تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اس کے سبب تمہارے لئے قیامت کے دن اسی طرح مہار والی سات سو اونٹنیاں ہونگی۔

(5) جنتیوں کی سواری سرخ ہیروں والے گھوڑے :
🌹عن سليمان بن بريدة عن أبيه أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله هل في الجنة من خيل ؟ قال : إنِ اللهُ أدخلك الجنة فلا تشاء أن تحمل فيها على فرس من ياقوتة حمراء يطير بك في الجنة حيث شئت ، قال : وسأله رجل فقال يا رسول الله هل في الجنة من إبل ؟ قال : فلم يقل له مثل ما قال لصاحبه ، قال : إن يدخلك الله الجنة يكن لك فيها ما اشتهت نفسك ولذت عينك
.(رواه الترمذي : 2543 )
ترجمہ :حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا:
اگر تمھیں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کیا تو اگر تم چاہوگے کہ سرخ ہیروں والے گھوڑے پر تمھیں سوار کیا جائے اور وہ جنت میں تمھیں لے کر جہاں تم چاہو اڑے تو ایسا ضرور ہوگا۔ پھر ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! کیا جنت میں اونٹ بھی ہوں گے؟ تو آپ نے اسے اس طرح جواب نہ دیا جیسے پہلے شخص کو دیا تھا۔ تاہم آپ نے فرمایا: اگر تمھیں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کیا تو اس میں تمھیں وہ سب کچھ ملےگا جس کی خواہش تمہارا نفس کرےگا اور جس سے تمہاری آنکھوں کو لذت ملےگی۔
٭ اسے شیخ البانی ؒ نے حسن لغیرہ قرار دیا ہے ۔ (صحيح الترغيب: 3756)

*قابل ذکر ایک اہم بات :*
*یہاں ایک اہم بات یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اوپر جن جانورکا بیان ہوا ہے کہ یہ جنت میں ہوں گے ان کے متعلق آپ نے یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ ان حیوانات کے صرف نام دنیاوی ہیں مگر دنیا جیسے نہیں ہوں گے۔ ان کی کیفیت جنت میں کیا ہوگی یہ صرف اللہ کو معلوم ہے*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)


*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                   

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/


آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Thursday, February 2, 2017

إني قد غفرت لهم ما خلا الظالم

 ( أن النبي صلى الله عليه وسلم دعا لأمته عشية عرفة بالمغفرة، فأجيب: إني قد غفرت لهم ما خلا الظالم، فإني آخذ للمظلوم منه، قال: أي رب إن شئت أعطيت المظلوم من الجنة، وغفرت للظالم فلم يجب عشيته، فلما أصبح بالمزدلفة أعاد الدعاء، فأجيب إلى ما سأل، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال: تبسم فقال له أبو بكر وعمر: بأبي أنت وأمي إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها فما الذي أضحكك؟ أضحك الله سنك! قال: إن عدو الله إبليس لما علم أن الله عز وجل قد استجاب دعائي وغفر لأمتي أخذ التراب فجعل يحثوه على رأسه ويدعو بالويل والثبور، فأضحكني ما رأيت من جزعه ). 

[162]ضعيف ابن ماجة برقم برقم 651.

حديث مشهور في فضل عفو المسلم عن أخيه المسلم ، لا يصح سنده .

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ُ، قَالَ: " بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ ، إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثَنَايَاهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ 
قَالَ: ( رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّ الْعِزَّةِ ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي مَظْلِمَتِي مِنْ أَخِي ، فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيكِ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي ) ؟!
قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُكَاءِ ، ثُمَّ قَالَ: 
( إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيمٌ ، يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلطَّالِبِ : ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ فِي الْجِنَانِ ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أَرَى مَدَائِنَ مِنْ ذَهَبٍ وَقُصُورًا مِنْ ذَهَبً مُكَلَّلَةً بِالُّلؤْلُؤِ ؛ لِأَيِّ نَبِيٍّ هَذَا ؟ أَوْ لِأَيِّ صِدِّيقٍ هَذَا ؟ أَوْ لِأَيِّ شَهِيدٍ هَذَا ؟ 
قَالَ: هَذَا لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ !!
قَالَ: يَا رَبِّ وَمَنْ يَمْلِكُ ذَلِكَ ؟ 
قَالَ: أَنْتَ تَمْلِكُهُ ، قَالَ: بِمَاذَا؟ قَالَ: بِعَفْوِكَ عَنْ أَخِيكَ ، قَالَ: يَا رَبِّ فَإِنِّي قَدْ عَفَوْتُ عَنْهُ ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَخُذْ بِيَدِ أَخِيكَ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ ) . 
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: (اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ) " .

وهذا إسناد ضعيف جدا ، عباد بن شيبة : قال ابن حبان : " مُنكر الْحَدِيث جدا عَلَى قلَّة رِوَايَته ، لَا يَجُوز الِاحْتِجَاج بِهِ ، لما انْفَرد بِهِ من الْمَنَاكِير ".
ينظر : "كتاب المجروحين" (2/ 171) . 

Thursday, January 28, 2016

سترہ کی مقدار

مُؤخِرَةِ الرَّحلِ"""یا """ آخِرَةِ الرَّحلِ""" کی اونچائی ایک متوسط قد کاٹھ کے آدمی کی """ذِراع """ یعنی """کلائی سے کہنی تک کی ہڈی کے برابر بتائی جاتی ہے ،  پس اس اونچائی سے چھوٹی کوئی چیز سُترہ کا کام نہیں دے سکتی ،
::::: اسی طرح نمازی کا اپنے سامنے خط کھینچنا ، یعنی نمازی کا اپنے سامنے لائن لگانا بھی سُترے کا م نہیں دیتا ،  اس کا ذکر ایک روایت میں ہوا ہے جس سے بعض لوگ  نمازی کے سامنے لائن لگانے کو سُترہ کے طور پر درست سمجھتے ہیں ، لیکن وہ روایت ضعیف یعنی کمزور ہے اور ناقابل حجت ہے ،

Wednesday, January 27, 2016

معني وهو معكم أينما كنتم


فالمعية في لغة العرب لا يلزم منها الاختلاط والممازجة ، فالعرب تقول : ما زلنا نسير والقمر معنا ، والنجم معنا . مع أن القمر في السماء ، وليس على الأرض ، وهو أسلوب عربي صحيح ، ولا يفهم أحد منه أن القمر صار معنا على الأرض .
فإذا جاز في المخلوقات أن تقول : إن القمر معنا ، وهو في السماء ، ففي الخالق سبحانه وتعالى من باب أولى .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية 
“وقد أجمع سلف الأمة على أنه سبحانه فوق العرش ، وأنه معنا ، وأن ذلك حق على حقيقته، لا يحتاج إلى تحريف ، ولكن 
يصان عن الظنون الكاذبة . [يعني بالظنون الكاذبة أن يفهم من هذا أنه سبحانه مختلط بالخلق] . 
وليس معنى قوله : (وهو معكم أينما كنتم) أنه مختلط بالخلق ، فإن هذا لا توجبه اللغة ، وهو خلاف ما أجمع عليه سلف الأمة ، وخلاف ما فطر الله عليه الخلق ، بل القمر آية من آيات الله ، من أصغر مخلوقاته ، وهو موضوع فى السماء ، وهو مع المسافر أينما كان” انتهى من “مجموع الفتاوى” (3/199-200) . 

Thursday, November 19, 2015

مطالعة كتب أهل الكتاب من أجل الدعوة


الراسخون في العلم الذين يستعملون هذه الكتب في مجادلة اليهود والنصارى ، وإقامة الحجة عليهم
ففي هذه الحالة : خوف الفتنة انتفى ، لأن عند الراسخ في العلم من المقدرة ما يؤهله إلى معرفة الباطل الذي أدخل في هذه الكتب ، والحذر منه ، ورده والتحذير منه أيضا ، مع ما في مجادلته لأهل الكتاب ورد باطلهم من المصلحة الشرعية المطلوب تحصيلها
ولهذا تتابع أهل العلم على استعمال هذه الكتب في محاججة اليهود والنصارى ، ومن أشهر من رد على اليهود والنصارى من خلال كتبهم : ابن تيمية في كتابه " الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح " ، و ابن القيم في كتابه " هداية الحيارى في أجوبة اليهود والنصارى " ، وابن حزم في كتابه " الفصل في الملل والأهواء والنحل " ، والقرطبي في كتابه " الإعلام بما في دين النصارى من الفساد والأوهام " ، وغيرهم كثير

Thursday, October 29, 2015

أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم هل هذا الحديث صحيح ؟

السؤال: أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم ، هل هذا الحديث صحيح ؟
 قال الألباني في "السلسلة الضعيفة" (58) : " موضوع   

قال الإمام ابن حزم رحمه الله في بيان بطلان هذا الحديث متنا :
" من المحال أن يأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم باتباع كل قائل من الصحابة رضي الله عنهم ، وفيهم من يحلل الشيء وغيره منهم يحرمه ، ولو كان ذلك لكان بيع الخمر حلالا اقتداء بسمرة بن جندب ، ولكان أكل البرَد للصائم حلالا اقتداء بأبي طلحة وحراما اقتداء بغيره منهم ، ولكان ترك الغسل من الإكسال واجبا اقتداء بعلي وعثمان وطلحة وأبي أيوب وأبي بن كعب ، وحراما اقتداء بعائشة وابن عمر ، ولكان بيع الثمر قبل ظهور الطيب فيها حلالا اقتداء بعمر ، حراما اقتداء بغيره منهم ، وكل هذا مروي عندنا بالأسانيد الصحيحة " انتهى . "الإحكام" (6 /244) .

Monday, February 2, 2015

أسألك وأتوجه اليك بنبيك محمد نبي الرحمة

قال شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله في حكم التوسل بالرسول صلى الله عليه وسلم: (والثاني: السؤال به، فهذا يجوزه طائفة من الناس، ونقل في ذلك آثار من بعض السلف، وهو موجود في دعاء كثير من الناس، لكنّ ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك كله ضعيفٌ بل موضوع.وليس عنه حديث ثابت قد يظن ان لهم فيه حجة، الا حديث الأعمى الذي علمه ان يقول «أسألك وأتوجه اليك بنبيك محمد نبي الرحمة»، وحديث الأعمى لا حجة لهم فيه، فانه صريح في أنه انما توسل بدعاء النبي صلى الله عليه وسلم وشفاعته، وهو طلب من النبي صلى الله عليه وسلم الدعاء، وقد أمره النبي صلى الله عليه وسلم ان يقول: «اللهم شفعه فيّ»، ولهذا رد الله عليه بصره لما دعا له النبي صلى الله عليه وسلم، وكان ذلك مما يعد من آيات النبي صلى الله عليه وسلم.ولو توسل غيره من العميان الذين لم يدعُ لهم النبي صلى الله عليه وسلم بالسؤال به لم تكن حالهم كحاله).[كتاب: قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة، طبعة رئاسة الافتاء].

Thursday, December 25, 2014

موسم سرما مومن کے لیے موسم بہار ہے

ابھی سردی کا موسم ہے، موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے اس سے عام طور پر لوگ غفلت میں ہیں، اس لیے موسم سرما کی مناسبت سے بھلائی کے چاہنے والے مسلمانوں بھائیوں کے لئے کچھ باتیں پیش کی جا رہی ہیں۔

Thursday, April 24, 2014

مؤرخ اہل حدیث:مولانا محمد اسحاق بھٹّی


تحریر : محمد انور محمد قاسم سلفی

دور حاضر میں اگر تاریخ نویسی اور خاکہ نگاری کے متعلق بات کی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ اس تعلق سے محترم مولانا محمد اسحاق بھٹّی حفظہ اﷲ کا تذکرہ نہ ہو ،حقیقت یہ ہے کہ بھٹّی صاحب نے اپنی شگفتہ تحریر اور جادو بیانی سے اس فن کو تازگی اور اس فکر کو بالیدگی عطا فرمائی ہے، بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے سارے بر صغیر ہند وپاک میں گرچہ کہ خاکہ نگار بے شمار ہیں ، لیکن مولانا محمد اسحاق بھٹّی صاحب کی بات ہی کچھ اور ہے :

Thursday, January 30, 2014

Wednesday, January 29, 2014

هل لحوم البقر فيها داء ؟

السؤال 
 في حديث لحوم البقر الذي جاء في آخره: أن لحمه داء. بعض العلماء المعاصرين صححه، فكيف الجمع بين تصحيحهم وبين تضعيف بعض علماء السلف؟
 الجواب  
ﻻ‌ يحتاج هذا إلى جمع، أتظن أن ربك سبحانه وتعالى يبيح لك ما فيه ضررك؟ ﻻ‌ يمكن، إذا كان أباح لحم البقر بنص القرآن، كيف يقال: إن لحمها داء؟!! إذا كان الحديث الشاذ المخالف لﻸ‌رجح منه في الرواية يرد، فالحديث المخالف للقرآن يجب رده. ولهذا نقول: من صححه من المتأخرين وإن كان على جانب كبير من علم الحديث فهذا غلط، يعتبر تصحيحه غلطاً، واﻹ‌نسان يجب أﻻ‌ ينظر إلى مجرد السند بل عليه أن ينظر إلى السند والمتن، ولهذا قال العلماء في شرط الصحيح والحسن: يشترط أﻻ‌ يكون معلﻼ‌ً وﻻ‌ شاذاً. لكن إذا تأملت أخطاء العلماء رحمهم الله ووفق اﻷ‌حياء منهم علمت بأنه ﻻ‌ معصوم إﻻ‌ الرسول عليه الصﻼ‌ة والسﻼ‌م، كل إنسان معرض للخطأ؛ إما أن يكون خطأً يسيراً أو خطأ فادحاً، أنا أرى أن هذا من الخطأ الفادح، أن يقول: إن لحمها داء ولبنها شفاء أو دواء. كيف؟ سبحان الله!! احكم على هذا الحديث بالضعف وﻻ‌ تبالي. ابن عثيمين رحمه الله

Sunday, November 10, 2013

فيديو قد يغير حياتك

مائة حديث من الأحاديث الضعيفة والموضوعة

مائة حديث من الأحاديث الضعيفة والموضوعة وهي منتشرة بين الخطباء والوعاظ
 
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد
فهذه (100) حديث من الأحاديث الضعيفة والموضوعة وهي منتشرة بين الخطباء والوعاظ ، وفي الصحيح ما يغني المسلم عن الأخذ بالضعيف. وأسأل الله أن ينفع بها . 

Thursday, November 8, 2012

بلند ہمتی کا معیار



بلند ہمتی کااصل معیار یہ ہے کہ انسان جنت کا رسیا بنا رہے ،اس کی ساری تگ ودو جنت کے حصول کے لیے ہو،وہ دنیا کمارہاہو لیکن اس کے پیچھے بھی اس کا مطمح نظر جنت ہو۔کیوں؟اس لیے کہ دنیا دارفانی ہے ،چند دنوں کا کھیل ہے ،یہ دراصل مردار ہے اور شیر کبھی بھی مردار پرواقع نہیں ہوتا،ہمیشہ کی زندگی آخرت کی زندگی ہے اوروہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے،اس لیے جس کی کوشش جنت کے لیے ہوگی وہی بلند ہمت ہے ۔یہاں پر ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ کفارومشرکین جنہوںنے دنیا کمانے میں پوری طاقت صرف کردی ہے اصل میں وہ بلند ہمت نہیں،کفارومشرکین کو بلند ہمت نہیں کہاجاسکتا ۔کہ ان کی کوششیں دنیا کے لیے صرف ہورہی ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: ومن یشرک باللہ فکا ¿نما خرمن السماءفتتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق ۔ اضرب لھم مثل الحیاة الدنیا کماءا ¿نزلناہ من السماءفاختلط بہ نبات الا ¿رض فا ¿صبح ھشیما تزروہ الریاح ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول  نے فرمایا: ان اللہ یبغض کل جعظری ،جوّاظ سخّاب فی الا ¿سواق،جیفة باللیل حماربالنھار،عالم با ¿مرالدنیا جاھل با مر الآخرة (رواہ ابن حبان فی صحیحہ وصححہ الا لبانی فی صحیح الجامع) ”بیشک اللہ تعالی مبغوض رکھتا ہے ہر متکبرسخت کلام کو جو مالوںکو جمع کرتااورروک کررکھتا ہے ،جوبازاروںمیںچلاتااورجھگڑنے میں لگاہوتاہے،جو رات میں مردار بنارہتا اور دن میں گدھا ہوتا ہے ،دنیا

Wednesday, October 3, 2012

ایمان کیاہے؟



ایمان کیاہے؟ ایمان کہتے ہیں کسی چیز پر دل کا یقین ہونا اوراس کی تصدیق کرنا ۔اورشریعت میںایمان سے مراد اللہ کی ذات وصفات اوراس کی الوہیت پرپختہ یقین ہوناہے ۔ ایمان وہ بنیادہے جس پر دین قائم ہوتا ہے ،اوراعمال کی قبولیت کے لیے بھی ایمان کا صحیح ہونا ضروری ہے ،جس طرح انسانی جسم میں سر کو اوردرخت میں تنے کواہمیت حاصل ہے کہ اگر سر نہیں تو انسانی جسم کا وجود نہیں اورتنانہیں تو درخت کا وجودنہیں اسی طرح اگر انسان کے اندر ایمان نہیں تو اسلام کا وجود ہی نہیں ہے ۔ 

یہی وجہ ہے کہ سارے انبیاءورسل نے اپنی اپنی قوم کوسب سے پہلے ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی اورغیراللہ کی عبادت سے منع کیا ،خوداللہ کے رسول ا مکہ میں تیرہ سال تک لگاتارلوگوںکوتوحید اوراصلاح عقیدہ کی طرف بلاتے رہے ۔ اُسی طرح ہرزمانے میں دعاة اورمصلحین نے لوگوںکو توحید کی طرف بلایااوراصلاح عقیدہ کی دعوت دی ۔ 

ایمان ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جو مسلمان کو شکوک وشبہات اورگمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔انسان کے اندر جو گمراہی پیداہوتی ہے ،انسان جو الگ الگ گروہوںمیں بٹ جاتا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے شروع میں عقیدہ کو بیس نہیں بنایا۔ اگر عقیدہ ٹھیک ہوجائے تو انسان کے اندر انحرا ف نہیں آسکتا ۔ کجی نہیں آسکتی ۔گمراہی نہیں آسکتی ۔

ایمان ایک زلزلہ ہے جو انسان میں داخل ہوتے ہیں اتھل پتھل مچادیتا ہے ،اس کی زندگی میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے جس سے اس کی زندگی صحیح سمت میں لگ جاتی ہے ۔ اب وہ بالکل آزاد نہیں رہتا ،اس کا کوئی قدم غلط نہیں اٹھتا ،اس کی آنکھ ،اس کا کان ،اس کا ہاتھ ،اس کا پیر ،اس کا دماغ سب اللہ اوراس کے رسول ا کے تابع ہوجاتا ہے ۔ 

ایمان ایک سدابہاردرخت ہے جو کبھی مرجھاتانہیں ،ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے ،اللہ پاک نے فرمایا: ضرب اللہ مثلا کلمة طیبة کشجرة طیبة ا ¿صلھا ثابت وفرعھا فی السماءتوتی ا ¿کلھا کل حین باذن ربھا ۔ایمان ایک ایسے پھلدار درخت کی مانند ہے جس کی ستر سے زیادہ شاخیںہیں ،صحیح مسلم کی روایت میں ہے اللہ کے رسول انے فرمایا: ایمان کی ستر سے اوپر شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لاالہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اورحیا وشرم بھی ایمان کی شاخ ہے ۔ 

یہ ایمان ہے جس کی بنیاد پر اللہ رب العالمین بلندی عطا فرماتا ہے اللہ پاک نے فرمایا: وا ¿نتم الاعلون ان کنتم مو ¿منین (آل عمران 139) تم ہی سربلند رہوگے اگر تم صحیح معنوںمیں مومن رہے ۔اگر تمہارے اندر صحیح ایمان رہا تو اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ زمین کی خلافت کے حقدار تم ہی ہوگے ،حکومت کے مالک تم ہی ہوگے ،دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ تم ہی کرو گے ، دنیا تمہارے نام سے لزر اٹھے گی ،تم کسی سے خائف اورمرعوب نہ ہوگے ۔ 

لیکن آج معاملہ اس کے بالکل اپوزٹ ہوچکا ہے ،آج ہم دنیا سے ڈرتے ہیں ،دنیا ہم سے نہیں ڈرتی ،جنہیں ہم سے کل آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی آج وہ ہمارے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ،وجہ کیا ہے ؟ ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کام کے نہیں .... جب ہم کام کے مسلمان تھے تو انسان تو انسان درندے بھی ہم سے ڈرتے تھے ۔

جی ہاں!ایمان سے ہی ہمیں دنیامیں پرسکون زندگی مل سکتی ہے اورآخرت کی کامیابی سے ہمکنارہوسکتے ہیں اللہ پاک نے سورہ نحل میں فرمایا: من عمل صالحا من ذکر ا ¿وا ¿نثی وھو مو ¿من فلنحیینہ حیاة طیبة ولنجزینھم ا ¿جرھم با ¿حسن ماکانوایعملون (النحل 97) ”جوشخص نیک عمل کرے ،مردہویاعورت یشرطیکہ ایمان والا ہوتواسے ہم بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے ،اوران کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے وعدہ کیا ہے کہ جو مردوعورت نیک عمل کرے اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی عطاکریں گے اورآخرت میں ان کے اعمال کا بہتر بدلہ دیں گے لیکن شرط یہ رکھی کہ عمل کرنے والا ایمان والا ہو ۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ دنیااورآخرت دونوںجگہ کی کامیابی کے لیے ایمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ 

اگر ایک انسان ایمان والا ہو ،اس کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوںکا بھی ارتکاب کرتا ہو ،اوراسی حالت میں اس کی موت ہوگئی ،توبہ نہ کرسکا ،تو اگر اللہ نے چاہا تو اسکے گناہوں کی اسے سزادے گا اور پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی ایمان ہوگا تو اسے بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیاجائے گا ۔ سبحان اللہ !یہ ایمان کی اہمیت ہے کہ رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان رکھنے والا شخص ایک دن جہنم سے ضرور نکلے گا ۔ 

محترم ناظرین ! جب ایمان اسقدر اہمیت رکھتا ہے کہ دنیا اورآخرت میں کامیابی اورنجات اسی پر منحصر ہے تو اب ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہورہی ہوگی کہ جانیں ایمان کا مفہوم کیا ہوتا ہے اوراس کے ارکان کیا ہیں : 

ایمان تین چیزوں کا نام ہے قول باللسان واعتقادبالجنان وعمل بالارکان زبان کا اقرار ،دل کی تصدیق اور اعضاءکا عمل ۔ یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرارکرنا ،دل سے ان کی تصدیق کرنا مثال کے طورپر زبان سے اقرار کرنا کہ اللہ تعالی ہی اکیلا رب ہے ،اس کے اسماءوصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے اسی طرح دل میں بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی ہی خالق ومالک اورعبادت کے لائق ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں اوروہ اپنے اسماءوصفات میں بھی یکتا ہے ۔

اورچونکہ ایمان کے ضمن میں عمل بھی داخل ہے اس لیے نیک عمل کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی آتی ہے ۔ انماالمو ¿منون الذین اذاذکر اللہ وجلت قلوبھم وادا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً (سورہ انفال ۲) سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اورجب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اوروہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ 

ایمان صرف دل کے اقراراورزبان کی تصدیق کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے ،بغیرعمل کے ایمان ایسی کنجی ہوگی جس میں دندانے نہ ہوں،جس طرح بغیر دندانے والی کنجی سے تالا نہیں کھلتا ہے ،اسی طرح ایسا ایمان جو عمل سے خالی ہو اس سے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا 

زبان سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں 

بلکہ اللہ تعالی نے سورہ العصر میں قسم کھاکر کہاہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوںکے جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ،والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر قسم ہے زمانے کی ،بیشک انسان گھاٹے میں ہے ،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ،اورنیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اورصبر کی تاکید کرتے رہے ۔ 

قرآن نے ایمان اورعمل کے درمیان جو ربط قائم کیا ہے اس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے ،دیکھئے قرآن کریم میں کم وبیش 38 جگہوںپر یہ الفاظ آئے ہیں آمنوا وعملوا لصالحات ایمان لائے اوراعمال صالحہ کئے ،ایک صحابی اللہ کے رسول اسے پوچھتے ہیں کہ یارسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی نصیحت فرما دیجئے جس پرعمل کرکے میںجنت پالوں۔ آپ نے فرمایا: قل آمنت باللہ ثم استقم یوںکہو!میں اللہ پر ایمان لایا،پھر اس پر استقامت اختیار کرو، استقامت کہاں ہوتی ہے ؟ دعوے میں نہیں ہوتی ، عمل میں ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول ا فرماتے ہیں الدین المعاملة معاملات کے درست ہوجانے کانام دین ہے ۔ ایمان صرف دعوے کا نام نہیں ایمان رویے (Attitude) کانام ہے ،ایک سلوک اورایک مسلسل عمل کا نام ہے ۔ ایمان سنی سنائی چیز کانام نہیں ،ایمان وراثت میں ملی ہوئی چیز کانام نہیں ،وراثت میں مکان ،دکان ،پلاٹ ،زمین پیسے مل جائیں گے مگر وراثت میں ایمان نہیں ملے گا ۔ ہم اتفاقیہ مسلمان ہیں ،لیکن اصل مسلم وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہو ۔Muslim by choise not by chance۔اس لیے اگر ایمان صحیح ہے تو اس میں عمل بھی آجائے گا ۔

ایمان جب ٹھیک ہوتاہے تواس کا اثر زندگی کے سارے معاملات پر پڑتا ہے ،اورعمل کے طورپر ایمان کی خصلتیںظاہرہوتی ہیں،کیاآپ جانتے ہیں کہ ایمان کی خصلتیں کیا ہیں ؟ ایمان کی خصلتوںمیں سے پہلی خصلت ہے :

رسول اللہ اسے محبت :بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول انے فرمایا: لایو ¿من ا ¿حدکم حتی ا ¿کون ا ¿حب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میںاس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے لڑکے اورتمام لوگوںسے زیادہ محبوب نہ ہوجاو ¿ں۔

ایمان کی دوسری خصلت ہے مومنوںسے محبت : صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ا نے فرمایا: تم جنت میںاس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آو ¿اورتم ایمان اس وقت تک نہیں لاسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو،کیا میں تم کوایسی چیز نہ بتاو ¿ںجسے اگرتم کروگے توآپس میں محبت بڑھے گی تم آپس میں خوب سلام کیا کرو۔ 

اوردوسری حدیث میں اللہ کے رسول انے فرمایا: لایو ¿من ا ¿حدکم حتی یحب لا ¿خیہ مایحب لنفسہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔“ 

ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ ہمسایہ کی عزت کی جائے ،مہمان کا احترام کیاجائے اورصرف اچھی بات کہی جائے : بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول انے فرمایا:جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتاہووہ بھلی بات کرے یاخاموش رہے ،اورجوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے ،اورجوشخص اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے “۔ 

اللہ کے رسول انے تو یہاں تک فرمایا: واللہ لایو ¿من واللہ لایو ¿من واللہ لایو ¿من ! اللہ کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ وہ شخص مومن نہیں ،وہ شخص مومن نہیں ،وہ شخص مومن نہیں ،صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ !کون مومن نہیں ؟ فرمایا: الذی لایا ¿من جارہ بوائقہ ۔وہ شخص جس کی شرارتوںسے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔آپ انے یہ بھی فرمایا: مومن وہ نہیں ہے جو پیٹ بھر کرکھائے اوراس کے برابرمیں اس کا پڑوسی بھوکاہو ۔ 

ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھے کردار کا حامل ہو ،چوری نہ کرے ،شراب نہ پئے ،زنا نہ کرے ،خیانت نہ کرے ،کسی کو دھوکہ نہ دے ،رشوت نہ لے ،تب ہی تو اللہ کے رسول ا نے بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق فرمایا: کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا ،شرابی جب شراب پیتا ہے تواس وقت مومن نہیں ہوتا ،چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔ 

ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھائی کاحکم دے اوربُرائی سے روکے ،صحیح مسلم کی روایت ہے ،اللہ کے رسول ا نے فرمایا: تم میں سے جوشخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے ،اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں براجانے اوریہ ایمان کا ادنی درجہ ہے “۔

محترم ناظرین ! یہ ہیں ایمان کی چندخصلتیں ،جب یہ خصلتیں انسان کے اندرپیدا ہونے لگتی ہیں تو اسے ایمان کا مزہ ملنے لگتا ہے ،ایمان کی چاشنی نصیب ہونے لگتی ہے ،جانتے ہیں ایمان کی چاشنی کیا ہے ؟ صحیح مسلم کی روایت ہے ،اللہ کے رسول انے فرمایا: ذا ق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدارسولا ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوا اوراسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوا اورمحمدا کو اپنا رسول ماننے پر راضی ہوا ۔ 

اورجب ایک بندہ مومن اللہ کو اپنا رب مان لیتا ہے ،اسلام کو اپنادین تسلیم کرلیتا ہے اورمحمداکو اپنانبی مان لیتا ہے تووہ ایمان کی لذت پانے کے ساتھ ساتھ ایمان کی حلاوت اوراس کی مٹھاس بھی پاتاہے ۔جانتے ہیںایمان کی مٹھاس کیا ہے ؟بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول انے فرمایا: ثلاث من کن فیہ وجدبھن حلاوة الایمان جس کے اندرتین چیزیں ہوںوہ ایمان کی مٹھاس پاتا ہے ،ایک یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اوراسکے رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں،دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کی خاطر محبت رکھے،تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اسے ایسے ہی ناپسند ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے ۔ 

Monday, September 24, 2012

كيف تحج و انت في بلدك .. للشيخ مشاري الخراز

كيف أكون مخلصة لله في جميع أعمالى


الشيطان يتعرض للإنسان ليفسد عليه أعماله الصالحة ولا يزال المؤمن في جهاد مع عدوه إبليس حتى يلقى ربه على
الإيمان بربه وإخلاص جميع أعماله له وحده ومن أهم دوافع الإخلاص :

1/ الدعــــــاء
الهداية بيد الله والقلوب بين أصبعين من أصابع الرحمن سبحانه وتعالى يقلبهما كيف يشاء فالجأ إلى من بيده الهداية وأظهر إليه حاجتك وفقرك وسأله دوماً الإخلاص وقد كان أكثر دعاء عمر بن الخطاب رضي الله عنه( اللهم اجعل عملي كله صالحا واجعله لوجهك خالصا

Saturday, August 25, 2012

سوق المعتمر الهدي معه إلى مكة

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد: 
فمن السنة التي نسيها كثير من الناس سوق المعتمر الهدي معه إلى مكة، لما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ساق معه الهدي في عمرة الحديبية، وقد روى البخاري في صحيحه: أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج زمن الحديبية من المدينة في بضع عشرة مائة من أصحابه حتى إذا كانوا بذي الحليفة قلد النبي صلى الله عليه وسلم الهدي وأشعر وأحرم بالعمرة. اهـ.

والإشعار معناه أن يطعن في أحد جانبي سنام البعير حتى يسيل دمها ليعرف أنها هدي ويتميز, قال الشيخ ابن عثيمين ـ رحمه الله تعالى: هذه من السنن المندثرة, لكن ليس السنة أنك إذا اعتمرت اشتريت شاة وذبحتها السنة أن تسوق الشاة معك تأتي بها من بلادك، أو على الأقل من الميقات، أو من أدنى حل عند بعض العلماء ويسمى هذا سوق الهدي، أما أن تذبح بعد العمرة بدون سوق، فهذا ليس من السنة.

وعلى هذا، إذا أردت أن تحيي هذه السنة فما عليك إلا أن تسوق معك الهدي من بلدك، أو الميقات، أو من الحل قبل دخول الحرم ـ كما قال الشيخ ـ ومن أهل العلم من رأى أن من اشتراه من الحرم يشرع له أن يخرجه إلى الحل ثم يعود به، ويمكن للمعتمر أن ينيب من يقوم عنه بأمر الهدي إذا تعذر عليه فعل ذلك بنفسه.

والله أعلم.

Sunday, July 1, 2012

قصہ اصحاب کہف : ابن ذکاء


اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیاء کرام کو اس دنیا میں بھیجا اور انبیاء کرام کو مختلف کتب و صحیفے عطا کئے۔ نبی اکرم صلی اللہ 
علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا کیا۔ قرآن مجید رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جہاں واضح احکامات نازل کئے، وہیں انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماضی کے قصوں کے ذریعے بھی ان کی تذکیر کی ہے اور ان کو بتایا ہے کہ ان قصوں میں بڑی عبرت اور نصیحت ہے۔ اب جو کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے اس میں بہت سامان ہے اور اگر کوئی قرآنی قصائص کو محض ماضی کے قصے کہانیاں سمجھ کر سنتا ہے تو اسے پھر کوئی ہدایت نہیں ملتی ہے۔ اس لئے قصص القرآن کو محض قصے کہانیاں سمجھ کر پڑھنے اور سنانے کے بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے ذریعے انسانوں کو کس بات کی ہدایت دی ہے۔
قرآنی قصوں میں سے ایک قصہ’’ اصحاب کہف ‘‘کا بھی ہے ۔اور یہ قصہ سورہ کہف میں بیان کیا گیا ہے۔ اس قصے میں بھی دیکھا جائے تو نہ صرف ایمان والوں کے لئے بلکہ ہر ذی شعور اور باضمیر فرد کے لئے ہدایت موجود ہے۔ یہاں ہم آپ لوگوں کے سامنے اصحاب الکہف کا قصہ مختصراً بیان کریں گے اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں یہ ہدایت دی ہے۔اور اس قصے میں ہمارے لیے کیا اسباق ہیں۔ قصہ سنانے سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا ذکر کیوں کیا ہے؟ مفسرین نے اس کی وجہ نزول یہ بتائی ہے کہ قریش مکہ نے اپنے دو آدمیوں کو مدینے کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ’’ یہودی اہل کتاب ہیں اس لئے ان سے محمد (ﷺ) کی بابت دریافت کرو کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ ‘‘ یہ دونوں افراد مدینے کے یہودی علما ء سے ملے اور نبی اکرم ﷺ کے حالات و اوصاف اور تعلیمات بیان کر کے آپﷺ کے متعلق انکی رائے معلوم کی۔اس کے جواب میں یہودیوں نے ان کوبتایا کہ تم محمد(ﷺ) سے یہ تین سوالات کرنا کہ ’’1 اگلے زمانے کے ان نوجوانوں (اصحاب الکہف ) کا کیا قصہ تھا؟ 2 اس شخص کے بارے میں معلوم کرو جس نے پوری دنیا کا چکر لگایا تھا اور مشرق و مغرب سے ہو آیا تھا۔ 3 جبکہ تیسرا سوال روح کی ماہیت کے متعلق تھا۔ (بعض علماء کے مطابق تیسرا سوال حضرت موسیٰ و خضر علیہ السلام کے متعلق تھا۔اور سورۃ کے مطالعہ سے بھی یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔) یہودیوں نے قریش مکہ کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ یہ ایسی باتیں ہیں جو صرف اللہ کا ایک نبی ہی ان کے متعلق جانتا ہے اگر وہ سچے ہونگے تو ان کے جواب دیں گے۔ قریش مکہ نے واپس آکر یہی سوالات نبی

Wednesday, June 27, 2012

عشرخطط لتدمير الإسلام

أتوا بـمصطفى كمال أتاتورك -الرجل الصنم وهو صنيعة غربية- ووضعوه بديلاً عن الخليفة، وأقام أول جمهورية علمانية في العالم الإسلامي، وأتى بحجاب المرأة المسلمة فمزقه في الميدان أمام الناس, وداسه بقدمه, وأتى إلى المصحف وهو يلقي خطبة أمام الجماهير وأمام الضباط، فمزق المصحف ثم داسه بجزمته عليه لعنة الله، ثم ألغى المدارس والمساجد واللغة العربية, وشطب على العقلية الإسلامية وصادر الخلافة؛ فتمزق العالم الإسلامي شيعاً وأحزاباً, كل حزب بما لديهم فرحون.
المخطط الثاني: القضاء على القرآن والسنة
يقول غلادستون : "ما دام هذا القرآن موجوداً فلن تستطيع أوروبا السيطرة على الشرق, ولا أن تكون هي نفسها في أمان كما رأينا" كما في كتابالإسلام على مفترق الطرق صفحة (39)
 المخطط الثالث: تدمير أخلاق المسلمين وعقولهم
يقول زويمر رئيس جمعيات التبشير في مؤتمر القدس عام 1935م: "إن مهمتكم -أيها المبشرون0 ليس بإدخال المسلمين في النصرانية ؛ فإنهم لن يدخلوا بهذه السرعة، إن مهمتكم أن تفصلوه من الدين" تجعلوه يعيش بلا دين
المخطط الرابع: القضاء على وحده المسلمين
يقول المبشر براون : "إذا اتحد المسلمون في امبراطورية عربية أمكن أن يصبحوا لعنة على العالم وخطراً، أما إذا بقوا متفرقين فإنهم يظلون حينئذٍ بلا وزن ولا تأثير" كتاب جذور البلاغ صفحة (202).
المخطط الخامس: تشكيك المسلمين بدينهم
والتشكيك يكون بأمور:
أولاً: الغمز في شخص الرسول صلى الله عليه وسلم

صور برامج مختلفة


Tuesday, June 12, 2012

خوشی کے آنسو


"اللہ کی قسم اُس دن سے پہلے میں نے یہ نہیں سمجھا تھا کہکوئی خوشی کی وجہ سے روتا ہے یہاں تک کہ میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس دن روتے ہوئے دیکھا" (سيرة ابن هشام
 یہ وہ جملہ ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت کہا تھا جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰعنہ ہجرتِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھاپنی تنہا ہمنشینی کی وجہ سے خوشی کی شدّت سے رو پڑے۔خوشی کے غلبہ کے وقت اسی وقت آنسو نکلتے ہیں جب انسانیکی خوشی اس درجہ زیادہ ہو کہ وہ اُس کا گمان یا اس کی امیدنہیں  کرسکتا تھا، ایسا ہی اُس وقت ہوا جب حضرتِ ابوہریرہ رضیاللہ تعالی عنہ کی والدہ نے اسلام قبول کیا، اس لئے کہ وہ ان کیہدایت سے مایوس ہو چکے تھے۔ چنانچہ خوشی کی شدّت کےمارے وہ رو پڑے ﴿صحیح مسلم﴾۔  اسی طرح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت خوش ہوئے تھے جب اللہ تعالی نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سورہءبینہ پڑھ کر سنائیں، چنانچہ خوشی کی شدّت سے وہ روپڑے۔ ﴿صحیح بخاری﴾۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کےبجائے ان کی طرف مائل ہونا پسند کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اُن سے فرمایا:
 "زندگی تمہاری زندگی ہے اور موت تمہاری موت ہے وہ لوگ روپڑےیہاں تک کہ ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں، اور اُن سب نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری قسمت اور ہماری خوشنصیبی ہیں، ہم اس پر راضی ہیں ﴿النسائی ، احمد﴾۔ تاریخ اور عہدِحاضر میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہ اندرونی اور جذباتیتاثر کی وہ انتہائی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے آپ پر قابو نہیںرکھتا اور انتہائی موثر کیفیت کا مظاہرہ کرتا ہے، شاعر کا قول ہے:  
 وَرَدَ الكِتَابُ مِنَ الحَبِيبِ بِأَنَّهُ   سَيَزُورُنِي فَاسْتَعْبَرَتْ أَجْفَانِي
میرے ہمدم کا یہ نامہ ملا کہ وہ میرے پاس آئے گا، اس کے ساتھہی میری آنکھیں تر ہوگئیں۔  
 طَفَحَ السُّرُورُ عَلَيَّ حَتَّى إِنَّنِي   مِنْ عُظْمِ مَا قَدْ سَرَّنِي أَبْكَانِي
میرے رگ و رشے میں خوشی دوڑ گئی یہاں تک کہ میری انتہائیخوشی نے مجھے رُلا دیا۔