Pages

Tuesday, June 5, 2012

مشترکہ وجداگانہ خاندانی نظام



آبی وسائل اور ان کے شرعی احکامات

پانی اللہ تعالیٰ کی بڑی اہم نعمت ہے ۔یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق بہت سے احکامات دیئے ، لہٰذا اس کی قدر کی جائے اوراس کا لحاظ رکھتے ہوئے پانی میں اسراف کی ممانعت کردی گئی اور اس کو آلودہ کرنے سے سختی سے منع کردیا گیا اور چونکہ سبھی کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس میں کسی کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی گئی ، نہ ہی ایسی ذخیرہ اندوزی کرنے کی اجازت دی گئی جو کسی کی
حق تلفی کا سبب بنے ۔

۱۔جن امور میں پانی استعمال کرنے کی اجازت ہے ان میں بلا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا اسراف ہے ۔
۲۔موقوفہ (وقف کیا گیا )پانی میں اسراف کرنا حرام ہوگا اور اگر مملوکہ (ملکیت والا)ومباح پانی ہے تو اس میں مکروہ ہوگا ۔
۳۔شریعت نے پانی کو صرف پاک رکھنے ہی کے احکام نہیں دیئے ہیں بلکہ پانی کو آلودگی سے بچانے کے لئے بھی شریعت نے متعدد احکام دیئے ہیں ،لہٰذا یہ بھی ضروری ہے ۔
۴۔ پانی کی قلّت کے پیش نظر اگر حکومتیں مفادِ عامہ کی خاطر پانی کے بعض استعمالات پر پابندی لگاتی ہیں تو یہ درست ہے او راس پر عمل ضروری ہے بشرطیکہ یہ پابندی کسی شرعی یا طبعی ضرورت کو پورا کرنے میں رکاوٹ نہ ہو ۔
۵۔مملوکہ زمین کے نیچے پانی مباح الاصل ہے کسی کو ملک نہیں ، بوقت ضرورت مصلحت عامہ کے پیش نظر حکومت بورنگ کرانے سے روک سکتی ہے ۔
۶۔پانی کی حفاظت اور اس کا ذخیرہ کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم افراد پر بھی اس کی ذمہ داری ڈالی جاسکتی ہے کہ زیر زمین پانی کی مناسب سطح باقی رکھنے کے لئے مناسب تدبیراختیار کریں اور تعاون کریں ۔
۷۔ بوقت ضرورت مفاد عامہ کے پیش نظر ڈیم تعمیر کرنے کے لئے آبادی منتقل کی جاسکتی ہے بشرطیکہ فوری ایسا عادلانہ معاوضہ اداکیا جائے جو لوگوں کے لئے تلافی مافات اور بازآبادکاری کے لئے کافی ہوسکے ۔
۸۔یہ ضروری ہے کہ سیلاب کے موقع سے بالائی اور نشیبی دونوں آبادیوں کے تحفظ کا خیال رکھا جائے اور حتیٰ الامکان وہ صورت اختیار کی جائے جس میں کم سے کم نقصان ہو ۔
۹۔اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنا بغیر دوسروں کو ضرر پہنچائے، درست ہے ۔
۱۰۔ نہروں سے استفادہ بقدر ضرورت جائز ہے بشرطیکہ اس سے نہروں اور دوسرے لوگوں کو نقصان نہ ہو۔
۱۱۔وہ تمام صورتیں جن میں پانی کو کسی چھوٹے بڑے برتن یا چیز میں بالقصد محفوظ کرلیا جائے ، ملکیت ثابت ہوجاتی ہے ،البتہ پانی کو مملوک بنانے کے لئے ایسی شکل اختیار نہ کی جائے جس سے عوام الناس کو ضرر لاحق ہو ۔
ٰ۱۲۔پانی پر ملکیت حاصل ہونے والی تمام شکلوں میں پانی کی تجارت جائز ہے جبکہ مفاد عامہ متاثر نہ ہو ، لہٰذا عوامی نلوں اور پانی کے ذخائر سے اپنے حق سے زیادہ لے کر اور دوسروں کو اس کے حق سے محروم کرکے اس پانی کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے ۔
۱۳۔ نشیبی علاقوں میں پلاٹنگ کرکے انہیں فروخت کرنا اور آبادیاں بسانا جب کہ ضرر عام لاحق ہو ، درست نہیں ہے ، خواہ حکومت کی طرف سے ممانعت ہو یا نہ ہو ۔
۱۴۔ ہر شہری کو پانی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ہے ، وہ اس پر مناسب معاوضہ بھی لے سکتی ہے ، اور معاوضہ پر قدرت رکھنے والوں سے
اجرت نہ اداکرنے کی صورت میں پانی روک لینے کا حق رکھتی ہے ۔
۱۵۔ پانی کی نکاسی کا نظام بنانا اور شہریوں کی صحت کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور عوام کا فریضہ ہے کہ وہ حکومت کے ایسے نظام وقوانین کا لحاظ رکھیں ۔

تجاویزبابت : مشترکہ وجداگانہ خاندانی نظام
مشترکہ اور جداگانہ خاندانی نظام سے متعلق مقالات ، ان کی تلخیص اور عرض کو سامنے رکھ کر بحث ومباحثہ کے بعددرج ذیل تجاویز منظور کی گئیں:

۱۔ مشترکہ خاندانی نظام ہو یا جداگانہ ، دونوں کا ثبوت عہد رسالت اور عہد صحابہ سے ملتاہے ، لہٰذا دونوں ہی نظام فی نفسہٖ جائز و درست ہیں ۔ جہاں جس نظام میں شریعت کے حدود وقوانین کی رعایت وپاسداری اور والدین ودیگر زیرکفالت افراد اور معذورین کے حقوق کی حفاظت ہوسکے اور فتنہ ونزاع سے بچاجاسکے اس نظام پر عمل کرنا بہتر ہوگا،کسی ایک نظام کی تحدید نہیں کی جاسکتی ہے ۔ البتہ یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتاہے کہ مورث کے انتقال کے بعد جتنی جلد ی ممکن ہو ترکہ کی تقسیم کرکے تمام شرعی وارثین کو ان کا متعینہ حصہ دے دیں تاکہ ایک دوسرے کے حقوق کا غلط استعمال نہ ہو اور یہ عمل باہمی نزاع اور نفرت وعداوت کا سبب نہ بن جائے ۔ یہ اجلاس خاص طور سے عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف مسلمانوں کی توجہ کو مبذول کرانا چاہتاہے ، کیونکہ اس میں بہت زیادہ کوتاہیاں پائی جاتی ہیں ۔
۲۔مشترکہ خاندانی نظام کی بنیاد ایثار وقربانی او رباہمی تعاون پر ہے ورنہ یہ نظام قائم نہیں رہ سکتا ، نیز عدل وانصاف کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے ۔لہٰذا اگر خاندان کے سبھی افراد صاحب استطاعت ہوںتو زیر کفالت افراد کی تعداد کے اعتبار سے اخراجات دیں گے اور اگر کوئی مالی اعتبار سے کمزور ہو تو ہر شخص اپنی آمدنی کے تناسب سے اخراجات برداشت کرے گا ، البتہ خاندان کے سبھی حضرات کو چاہئے کہ جائز ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ کمانے والوں پر بوجھ نہ پڑے ۔
۳۔ جب آمد وخرچ دونوں مشترک ہوں تو اخراجات کے بعد بچی ہوئی رقم سے خریدی گئی چیز میں سبھی افراد برابر کے حقدار ہوں گے ۔
۴۔ جب سبھی بھائیوں کا ذریعہ آمدنی الگ الگ ہواور سبھوں نے برابر برابر رقم جمع کی اور ایک بھائی نے اپنی زائد آمدنی کو بچاکر اپنے پاس رکھا تو یہ بھائی اپنی زائد آمدنی کا خود مالک ہوگا ، دوسرے بھائی اس کے حق دار نہیں ہوں گے ۔
۵۔ الف : اگر خاندان کے افراد کسی معاہدہ کے تحت کام کرتے ہوں تو جو بھی آمدنی ہوگی ، وہ خاندان کے سبھی افراد کے درمیان حسب معاہدہ تقسیم ہوگی خواہ وہ گھر پر کام کرتے ہوں یا باہر ۔
ب: اگر کاروبار ایک ہی ہو ، کچھ لوگ گھر پر کا م کرتے ہوں او رکچھ لوگ گھر کے باہر تو اس صورت میں کل آمدنی سبھی افراد کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگی ۔
ج: اگر الگ الگ کاروبار ہو اور ان کے درمیان کسی طرح کا معاہدہ نہ ہو تو باہر کمانے والوں کی آمدنی میں گھر کا کام دیکھنے والے حقدار نہیں ہوں گے ۔
۶۔ والدین کی خدمت وکفالت لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں پر بھی حسب استطاعت واجب ہے ۔ اگرماں کو ایسی خدمت کی ضرورت ہو جس کو کوئی عورت ہی انجام دے سکتی ہے اور بہو کے علاوہ کوئی دوسری قریبی عورت خدمت کرنے والی نہ ہو نیز ماںمجبور ہو ، خود سے وہ کام انجام دینے کے لائق نہ ہو تو ایسی صورت میں بہو پر ساس کی خدمت واجب ہوگی ۔
۷۔مشترکہ خاندان میں بھی شرعی پردہ کا اہتمام کیا جائے ، کسی غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنے سے اور ہنسی مذاق نیز غیر ضروری گفتگو سے اجتناب کرنا لازم ہے ،البتہ احتیاط کے باوجود اگر سامنا ہو جائے اور ہر طرح کے فتنہ سے بچنے کی کوشش ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۸۔ سماج کے معمر اور سن رسیدہ افراد انسانی سماج کے لئے بیش قیمت سرمایہ ہیں ، ان کی راحت رسانی اور خدمت انسانی سماج کی ذمہ داری ہے ، خصوصاً اولاد اور افراد خاندان کی ذمہ داری ہے کہ بوڑھوں کی خدمت کریں ، ان کی عزت وتکریم کریں اور انہیں اپنے ساتھ محبت اور الفت کے ساتھ رکھیں اور ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھیں ۔

---------------

تفریح وسیاحت- اس کے احکام وشرعی ضوابط
ٔ٭ فلم سازی ، کارٹون اور ڈرامہ ۔

۱۔غیر ذی روح اشیاء مثلاً تاریخی مقامات اور قدرتی مناظر کی عکس بندی جائز ہے ۔
۲۔ تفریحی مقاصد کے لئے ذی روح کی عکس بندی جائز نہیں ہے۔
۳۔تعلیمی ،اصلاحی اور دعوتی مقاصد کے لئے عکس بندی اور اس سے استفادہ کی گنجائش ہے خواہ اس میں ضمناً ذی روح کا عکس آگیا ہو ۔
۴۔ایسی عکس بندی جن میں کسی عورت کی تصویر ہویا انبیاء وصحابہ کی تمثیل ہو یا دیگر کوئی شرعی منکر ہو ، بنانا او ران کو دیکھنا جائز نہیں ہے ۔
۵۔ ایسے کارٹون جن میں خدوخال واضح ہوں وہ تصویرمیں شمارہوکرناجائز ہیں ۔
۶۔ ایسے کارٹون بنانا جس سے کسی کی اہانت مقصود ہو جائز نہیں ہے اگرچہ اس میں خدوخال واضح نہ ہوں۔
۷۔ ایسے کارٹون جو عریانیت پر مشتمل ہوں یا برائی کی ترغیب دے رہے ہوں وہ بھی جائز نہیں ۔
۸۔ تربیتی مقصد سے بچوں کے لئے ایسے کارٹون بنانا جن میں خدوخال واضح نہ ہو اور بچوں کے لئے نفسیاتی ، اخلاقی اور لسانی نقطۂ نظر سے مفید ہوں ،جائز ہے ۔
۹۔ کارٹون سازی کی جو شکلیں جائز ہیں ان کو ذریعہ آمدنی بنانے اور اس مقصد کے لئے ملازمت کرنے کی گنجائش ہے ۔
۱۰۔ اچھے کاموں کی ترغیب اور معاشرہ کے مفاسد پر تنقید کے لئے مکالمات اسٹیج کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ اس میں موسیقی یا کسی کی کردار کشی یا مرد وزن کا اختلاط یا انبیاء وملائکہ او رصحابہ کی تمثیل نہ ہو نیز غیر شرعی اور غیر اخلاقی امور سے پاک ہو ۔
ٔ٭مزاح
الف۔ مزاح جائز ہے بشرطیکہ وہ جھوٹ ، فحش نیز استہزاء ایذارسانی پر مشتمل نہ ہو ۔
ب۔ ایسے مزاحیہ پروگرام یا مزاحیہ مشاعرے جن سے دینی یادینوی مصالح متاثر ہوں، جائز نہیں ہیں ۔
ج۔ لطیفہ گوئی یا مزاح نویسی کو ذریعہ معاش بنالینا مناسب نہیں ہے ۔
د۔ ایسے پروگرام جن کا مقصد صرف ہنسنا ہنسانا ہوشریعت کے مزاج کے خلاف ہیں ،البتہ یہ غرض علاج اس کی گنجائش ہے ۔
٭سیاحت:
الف۔ اسراف سے بچتے ہوئے تفریحی مقصد کے لئے ایک شہرسے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنا جائز ہے ۔
ب۔ ایسے مقامات جہاں جان یا عزت وآبرو کا تحفظ خطرے میں ہو ، وہاں خود جانا درست ہے اور نہ اہل وعیال کو ساتھ لے جانا درست ہے ۔
ج۔ تفریح کے لئے ایسی جگہوں میں جاناجہاں غیر شرعی امور کا غلبہ ہوجائز نہیں ہے، اور ایسے مقامات پر جانے والوں کی سواری کرائے پر دینے یا اشیاء خوردونوش فروخت کرنے کے لئے دکان لگانے کی گنجائش ہے ۔
د۔ جائز مقاصد کے لئے ٹراولز کمپنیوں کا قیام درست ہے ۔
ہ۔ سیاحت کا تعلق مذہبی ،تہذیبی اور ثقافتی رشتوں کو مضبوط کرنے ، اپنے گزرے ہوئے لوگوں کے کارناموں کو اُجاگر کرنے اورمذہبی وقومی تاریخ سے روشناس کرانے سے ہے ،اس لئے جو مسلمان اس پیشہ سے جڑے ہوئے ہیں ، ان سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانو ں کے لئے اسلامی نقطۂ نظر سے ان کو پورا کرنے والا پیکیج تیار کریں تاکہ مسلمان نوجواں کو بے راہ روی اور احساس کمتری سے بچایا جاسکے اور غیر مسلم بھائیوں کے سامنے بھی مسلمانوں کی صحیح تصویر آسکے ۔
٭کھیل کود
الف۔ ایسے کھیل جو انسان کے وسیع تر مفاد میں ہوں ،جن سے جسمانی قوت ،چستی ونشاط کی بحالی میں مدد ملتی ہوجائز ہیں بشرطیکہ وہ منکرا ت سے خالی ہوں ۔ دینی یا دنیوی حقوق وفرائض سے غفلت یا کسی بھی جاندار کی اذیت کا باعث نہ ہو ۔
ب۔ عام حالات میں شریعت نے مردوعورت کی ستر پوشی کے لئے جو اصول مقرر کئے ہیں ، کھلاڑیوں کے لئے بھی ان کی پابندی ضروری ہے ۔
ج۔ جن کھیلوں کے بارے میں احادیث میں ترغیب آئی ہے وہ مستحب ہیں ، ان کے علاوہ مروّجہ کھیلوں میں جو مذکورہ بالا اصول کے مطابق ہوں ، وہ جائز ہیں ۔
د۔ کھیل کی ہارجیت میں پیسے کی شرط اگر یک طرفہ ہو یا کسی تیسرے فریق کی جانب سے ہو تو جائز ہے اور اگر شرط جانبین سے ہوتو ناجائز ہے ۔
ہ۔ وقت انسانی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے ، لہٰذا ازروئے شرع کوئی بھی ایسا کھیل کراہت سے خالی نہیں ہوگا جو اپنے طریقے اور لباس کے اعتبار سے تومحرمات پر مشتمل نہ ہو لیکن اس میں کھیلنے یا دیکھنے والوں کا کافی وقت ضائع ہوتاہو۔
و۔ جو کھیل جائز ہیں انہیں دیکھنے اور ان کے لئے ٹکٹ خریدنے کی گنجائش ہے ۔
ز۔ جو لوگ کھیل میں شریک نہیں ہیں لیکن کسی فریق یا فرد کے جیتنے پر آپس میں پیسوں کی بازی لگائیں تو یہ بھی قمار میں داخل ہے اور حرام ہے ۔
ح۔ کھیل کی ایک وقتی تفریح کی حد تک تو گنجائش ہے مگر اس کو زندگی کا مقصد بنالینا جائز نہیں ہے ۔
ط۔ تعلیم وکسب معاش کی جائز سرگرمیوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو کھیل کے لئے وقف کردینا مناسب نہیں ہے ۔

No comments:

Post a Comment