Pages

Thursday, April 24, 2014

مؤرخ اہل حدیث:مولانا محمد اسحاق بھٹّی


تحریر : محمد انور محمد قاسم سلفی

دور حاضر میں اگر تاریخ نویسی اور خاکہ نگاری کے متعلق بات کی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ اس تعلق سے محترم مولانا محمد اسحاق بھٹّی حفظہ اﷲ کا تذکرہ نہ ہو ،حقیقت یہ ہے کہ بھٹّی صاحب نے اپنی شگفتہ تحریر اور جادو بیانی سے اس فن کو تازگی اور اس فکر کو بالیدگی عطا فرمائی ہے، بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے سارے بر صغیر ہند وپاک میں گرچہ کہ خاکہ نگار بے شمار ہیں ، لیکن مولانا محمد اسحاق بھٹّی صاحب کی بات ہی کچھ اور ہے :
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
مولانا محمد اسحاق بھٹّی وہ کہنہ مشق صحافی ، مؤرخ ، عالم دین ، تجزیہ نگار اور خاکہ نگار ہیں ،جو تقریبا ساٹھ سال سے اپنے رشحات قلم کی عطر بیزی سے ایک دنیا کے طالبان علوم دینیہ ، ووارثان علوم نبوت ، اورمحبان اسلامی صحافت کی مشام روح کو معطر کئے ہوئے ہیں ، گویا:
عمر گذری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
 میرے لئے یہ بات باعث سعادت ہے کہ میں اس عظیم مؤرخ ،مصنف اور خاکہ نگار کا تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کروں ، جس نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال لوح وقلم کی خدمت میں لگادیا ، اور اس عرصے میں کم وبیش پچاس ہزار سے زائد صفحات تحریر کیا ، جسے اگر ایک ساتھ جمع کیا جائے تو کم از کم سو ضخیم جلدیں بنیں گی ، اورجن کی علمی خدمات پر طلباءنے ایم اے اور Phd کے مقالات لکھے ، اور بر صغیر ہند وپاک کے بے شمار مجلات ورسائل میںشائع ہونے والی جن کی تحریریں ساری دنیا کے چپے چپے میں پہنچ رہی ہیں گویا :
کچھ قمریوں کو یاد ہے ، کچھ بلبلوں کو حفظ
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اور جنکا قلم سیال 83سال کی اس عمر میں بھی مضامین نو کے انبار لگا رہاہے:
 لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
اور جو اس عمر میں بھی صحافت کی آبرو بنے ہوئے ہےں ، اور اس بڑھاپےمیں بھی جن کی یاد داشت عہد رفتہ کو بس ایک آواز دے کر بلا لیتی ہے ،گویا:
نظر میں عہد رفتہ ہے اب بھی حال کی طرح
سلف کا شیوہ سامنے ہے ایک مثال کی طرح
آئیے اس پُربہار شخصیت سے قارئین کی آ دھی ملاقات کرادوں۔

نام ونسب اور ولادت

مولانا محمد اسحاق بھٹّی بن عبدالمجید بن محمد بن دوست محمد بن منصور بن خزانہ بن جیوا ، آپ کے جد امجد جیوا ، مہاراجا پٹیالہ کے درباری تھے ، میاں جیوا کی آل واولاد طلب روزگار کے لئے پنجاب کے مختلف قصبوں اور دیہاتوں میں چلی گئی ، جن میں سے اکثر تقسیم ملک سے پہلے کوٹ کپورہ (ریاست
فرید کوٹ) مشرقی پنجاب میں آباد ہوگئے ، آپ کی پیدائش یہیں 15مارچ 1925کو ہوئی پانچ سال کی عمر میں دادا مرحوم سے قرآن مجید ناظرہ اور اردو لکھنا پڑھنا شروع کیا ، اور ساتھ ہی سرکاری سکول کی پہلی جماعت میں داخلہ لیا اور یہیں چوتھی جماعت تک پڑھ کر پرائمری پاس کیا

تعلیم وتربیت

طبیعت چونکہ علوم دینیہ کی طرف مائل تھی ، اس لئے اس وقت کے جید عالمدین ، شارح سنن نسائی ،اور ادارہ الدعوة السلفیہ اور ہفت روزہ مجلہ الاعتصامکے بانی حضرت مولانا عطاءاللہ حنیف محدث بھوجیانی رحمہ اﷲ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ، جو موضع بھوجیان ، تحصیل ترنتارن ، ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے ، اور جو اس وقت خطابت وتدریس کے لئے ” کوٹ کپورہ،، کی انجمن اصلاح المسلمین کی دعوت پر تشریف لائے ہوئے تھے ، آپ نے مولانا مرحوم سے نحو صرف ، بلاغت عروض ،منطق وفلسفہ ، بیان ومعانی ، فقہ واصول فقہ ، حدیث وتفسیر کی ساری کتابیں جو اس زمانے میں درس نظامی میں شامل تھیں ، مولانا مرحوم ومغفور 1933سے 1939کے عرصے میں پڑھیں۔ پھر 1940 سے 1941 تک شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اﷲ ( خسر علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ) اور حضرة العلام شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اﷲ کی خدمت میں گوجرنوالہ میں رہ کر کسب فیض کیا ۔مشہور مجاہد آزادی ،دینی ،علمی اور سیاسی لیڈر حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی اورصاحب تصانیف کثیرہ، متکلم زماں حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہما اﷲ کی فیض صحبت وتربیت نے آپ کی علمی وفکری زندگی کو جلا بخشا ، اپنے ان مشفق مربیان کرام کے متعلق مولانا خود رقم طراز ہیں :
میری تربیت جن علمائے کرام میں ہوئی ہے وہ نہایت اونچی شخصیتیں تھیں ، اور وہ بے حد معتدل مزاج تھے ،اور اپنی بات مثبت انداز میں کرتے تھے ، منفی نقطہءنظر سے کوسوں دور تھے ، ان میں سے کسی نے بھی کفر وشرک ، الحاد وبے دینی کے فتوے جاری نہیں کئے ، وہ لوگوں کو مسلمان بنانے کے خواہاں تھے ،اور اسی کےلئے کوشاں رہتے تھے ، ان میں سے کسی نے نہ الحاد کی دوکان لگائی ، نہ یہ کفر کی تقسیم کے لئے کوشاں ہوئے ، نہ لوگوں کو مشرک بنانے کا دھندہ کیا ، نہ کسی کو جنت سے نکالنے اور جہنم میں داخل کرنے کی کوشش کی،،

جہاد آزادی میں قید وبند

مولانا نے جن حالات میں ہوش سنبھالا ، وہ استعمار کے زوال اور صبح آزادی کے طلوع ہونے کا زمانہ تھا ، انگریز اس خطے پر اپنے نا پاک قبضے کو دوام بخشنے کے لئے سارے گُر اور ہتھکنڈے استعمال کررہے تھے اور آزادی کے پروانے بھی حصول آزادی کے لئے سر سے کفن باندھ چکے تھے ، وہ دور جس میں مولانا آزاد کے ” الہلال ،، ”البلاغ،، مولانا محمد علی جوہر کے ”ہمدرد ،،اور ”کامریڈ،، علامہ اقبال کے فلسفہءخودی ، مولانا ظفر علی خان ظفرکے ”زمیندار ،، اورشبیر احمد جوش ملیح آبادی کی انقلابی نظموں ، اور تحریک خلافت ، تحریک عدم تعاون ،اور تحریک ”ہندوستان چھوڑدو ،،جیسی تحریکوں نے ہر اس شخص کو جس کے دل میں وطن عزیز کے لئے تھوڑا سا بھی جذبہءقربانی ہو ،سرفروشی کی تمنا لیکر سڑکوں پر کھینچ لایا تھا ، اور عالم یہ تھا کہ تاجروں نے تجارت چھوڑ دی ، کسانوں نے ہل ، علماءنے مدارس اور ملازمین نے اپنی سرکاری ملازمتوں کو چھوڑ کر ساری قوم استعمار کے آگے سینہ سپر ہوگی ، بھلا ایسے حالات میں مولانا بھٹّی تحریک آزادیءوطن سے اپنا دامن کیسے بچا سکتے تھے ، آپ نے استخلاص وطن کے لئے اپنی ریاست کی ”پرجا منڈل ،، میں شمولیت اختیار کرلی ، جس کے صدر اس زمانے میں گیانی ذیل سنگھ جی تھی ، جو بعد میں مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ، پھر مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ اور پھر 1982 سے لیکر 24/جولائی 1987 کے درمیانی وقفے میں ہندوستان کے صدر جمہوریہ بنے، اور اس کے سکریٹری ہمارے ممدوح مولانا محمد اسحاق بھٹّی صاحب تھے ، اس ”پرجا منڈل ،، کو آزادی کی صبح تک کن کن مصائب سے دوچار ہونا پڑا، اور کس مد وجزر سے گذرنا پڑا مولانا نے اس کی تفصیل اپنی کتاب ” نقوش عظمت رفتہ،، میں اپنے بچپن کے دوست اور تحریک آزادی کے ہم سفر گیانی ذیل سنگھ کے تذکرے میں اس خوب صورتی سے بیان کیا ہے کہ اس دور کی مشرقی پنجاب کی ساری جد وجہد آزادی کا حسین مرقع آنکھوں میں پھر جاتا ہے ، لکھتے ہیں :
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945ءکے آخر میں پنجاب کی ریاستوں میں پھر تحریک آزادی شروع ہوگئی ، یہ تحریک بہت زور دار تھی اور 1946ءمیں اس نے شدت اختیار کرلی تھی ، ہماری ریاست بھی اس تحریک کی زد میں آچکی تھی ، ریاست میں دفعہ 441 نافذ تھی اور جلسے جلوس کی قطعی ممانعت ۔ ان حالات میں طے کیا گیا کہ دفعہ 441 توڑی جائے، سول نافرمانی شروع کردی جائے ،اور پانچ پانچ آدمی گرفتاریاں پیش کریں، اس کے لئے پہلے تو ہم لوگ فیروز پور گئے ، وہاں گوکھلے میدان میں سائبان نصب کئے اور ڈیرہ لگا لیا ، پھر فرید کوٹ شہر کے ریلوے سٹیشن کو مرکز بنایا گیا جو انگریزی علاقہ ہونے کی وجہ سے ریاستی حکومت کے دسترس سے باہر تھا ، جون کا مہینہ گرمی کی شدت سے تپ رہا تھا کہ دن کے گیارہ بجے پانچ آدمیوں کا پہلا جتھا نعرے لگاتا ہوا آیا اور ریلوے لائن عبور کرکے ریاست کی حد میں داخل ہوگیا ، اس جتھے میں دو مسلمان ، میں (مولانا محمد اسحاق بھٹّی ) اور قاضی عبید اﷲ( جن سے فرید کوٹ جیل میں گیانی ذیل سنگھ نے اردو اور قرآن پڑھنا سیکھا تھا ) دو سکھ بھائی دیال سنگھ اور لہنا سنگھ اور ایک ہندو چیتن دیو شامل تھے۔جہاں انہیں فی الفور گرفتار کرلیا گیا ، گرفتاری کی اس تقریب میں بے شمار لوگ جمع تھے جو ریاستی حکومت کے خلاف اور گرفتاری دینے والوں کے حق میں زور زور سے نعرے لگارہے تھے ۔ کچھ مسلمان، سکھ اور ہندو ایسے بھی تھے جو چند گز کے فاصلے پر ریلوے اسٹیشن کے اندر کھڑے ہماری مخالفت میں تقریریں کررہے تھے ، ۔ ایک مولوی صاحب فرید کوٹ کے سکھ حکمران ہر اندر سنگھ کو ” اولو الامر ،، قرار دیکر اسکی اطاعت کا اعلان فرمارہے تھے ۔ ان تقریروں کا ہمارے بعض ساتھی اسی لب ولہجے میں جواب دینا چاہتے تھے ، لیکن سب کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہے ، وہ بار بار کہتے تھے کہ یہ لوگ ہمیں اشتعال دلاکر تحریک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ، لیکن ہمارا فرض ہے کہ حالات کا پورے صبر وتحمل کے ساتھ مقابلہ کریں اور ہر صورت میں امن وشانتی کی فضا برقرار ر کھنے کی کوشش کریں ۔

فرید کوٹ جیل سے رہائی

اپنی رہائی کے متعلق خود تحریر فرماتے ہیں :
فرید کوٹ کے داروغہ جیل کا نام عجائب سنگھ تھا ، بہت شریف اور نرم آدمی تھا ، حتی الامکان کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا ، ایک دن دس بجے کے قریب وہ ہمارے پاس آیا اور کہا : میں صابن بھیج رہا ہوں ، مہربانی کرکے آج آپ اپنے کپڑے دھولیں،،۔ ہم اس پر متعجب ہوئے کیونکہ آج صابن ملنے والا دن توار نہیں تھا، دوسرے دن دس بجے کے قریب عجائب سنگھ آیا اور کہا : مہربانی فرماکر میرے ساتھ چلئے ،،۔وہ دیوڑھی میں لے گیا ، ہم نے دیکھا کہ ایک گورے چٹے صاحب وہاں تشریف فرما ہیں ، ان کے ساتھ ریاست کے چیف سکریٹری رام سنگھ بیٹھے ہیں ، ہمیں دیکھ کر یہ دونوں کھڑے ہوگئے ، اور سب سے ہاتھ ملائے ۔ کھدر پوش آدمی نے چیف سکریٹری سے کہا : ” آپ تشریف لے جائیے میں ان سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں ،،۔
میں سمجھا کہ یہ بھیم سین سچر ہوں گے ، لیکن انہوں نے بتلایا :”میرا نام سیف الدین کچلو ہے اور میں پنجاب کانگریس کا صدر ہوں ،،۔ میں نے ان سے کہا : ” پنجاب کانگریس کے صدر تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے ،،۔ انہوں نے بتایا : نئے انتخاب میں مولانا داؤد غزنوی صدر نہیں رہے ، اب یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی ہے ،، ۔ ڈاکٹر کچلو نے بتایا کہ باہر تحریک زوروں پر چل رہی ہے ، یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے کانگریس ہائی کمان نے مجھے یہاں بھیجا ہے ، ایک دو دن میں پنڈت جواہر لال نہرو یہاں آرہے ہیں ، وہ مہا راجہ سے گفتگو کریں گے ، پرجا منڈل کے مطالبات مان لئے جائیں گے اور آپ لوگوں کو رہا کردیا جائے گا ۔
کچھ عرصے بعد پنڈت نہرو فرید کوٹ آئے ، لیکن ریاست میں دفعہ 144 نافذ تھی ، وہ بذریعہ ریل آئے ، بہت بڑا ہجوم ان کے استقبال کے لئے فرید کوٹ کے ریلوے اسٹیشن پر جمع تھا ، وہ ہجوم کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے شہر میں داخل ہونے لگے تو فیروز پوری دروازے پر ایک ہندو مجسٹریٹ کھڑا تھا ، اس نے ان کو کاغذ دکھایا اور کہا کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے ، آپ اندر نہیں جاسکتے ۔ پنڈت جی نے کاغذ کا وہ پرزہ ان کے ہاتھ سے پکڑا اور اسے پھاڑ کر زمین پر پھینکتے ہوئے کہا : ” ہم اس طرح کے کاغذ کے پرزوں کو اسی طرح کیا کرتے ہیں ،،۔ پھر ہجوم سے مخاطب ہوکر بولے : ” بڑھو نوجوانو! ،،۔ اس کے بعد وہ غلہ منڈی گئے اور وہاں جاکر تقریر کی ۔ بعد ازاں راجہ فرید کوٹ ہر اندر سنگھ نے اپنی کار بھیجی اور پنڈت جی کو اپنے محل میں آنے کی دعوت دی ۔ وہ وہاں گئے اور دونوں نے باہم بات چیت کی ۔ اس کے نتیجے میں ہمیں رہا کردیا گیا ۔( نقوش عظمت رفتہ :555۔556)
یہ مولانا بھٹی صاحب کی دوسری گرفتاری تھی ، جب کہ اس سے پہلے بھی آپ ۹۳۹۱ءمیں وطن عزیز کی آزادی کے لئے کچھ عرصہ فیروز پور جیل میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل چکے تھے ۔گویا بھٹی صاحب نے سیاست میں قدم اس دور میں رکھا تھا جس کے متعلق شورش کاشمیری مرحوم نے فرمایا تھا :
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں

تقسیم ملک کے بعد

تقسیم ملک کے بعد کیا بیتی ؟آپ خود اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں :
14 اگست 1947 ءکو ملک تقسیم ہوگیا تو 21 اگست 1947 ءکوہم اپنے قدیم مسکن سے نکلے اور قصور آگئے ، ایک مہینہ دس دن وہاں رہے پھر اپنے خاندان کے ساتھ ضلع لائل پور ( موجودہ فیصل آباد) کی تحصیل جڑاں والہ کے ایک گاؤں چک نمبر 53 گ ب منصور پور میں آگئے ،یہ وہی لائل پور ہے جسے ہم نے مسلمان بنا کر ” فیصل آباد،، کے نام سے موسوم کردیا ہے ، کافر کو مسلمان بنایا جائے تو سنا ہے بہت ثواب ہوتاہے ، چنانچہ حصول ثواب کے لئے ہم نے بے شمار گلیوں ، محلوں ، سڑکوں ،دیہاتوں ،قصبوں اور شہروں کو مسلمان بنادیا ہے اور اﷲ کی مہربانی سے اس طرح ہم جنتی ہوگئے ہیں ، علاوہ ازیں سکولوں اور کالجوں کو بھی ہم نے دائرہ اسلام میں داخل کرلیا ہے اور اس طرح جنت الفردوس میں داخلہ اپنے لئے پکا کرلیا ہے ۔ ہمارے موجودہ گاؤں چک 53 گ ب ڈھیسیاں بھی کہا جاتا ہے ۔
بہر حال جب ہم گھر سے نکلے تو کوئی چیز ہمارے پاس نہیں تھی ، نہ کوئی کپڑا ، نہ کوئی چھوٹا بڑا برتن ۔ میری عربی ،اردو اور فارسی کی تین سو کے قریب کتابیں تھیں وہ بھی وہیں رہ گئیں اور وہ سندیں بھی جو مشفق ترین اساتذہ نے انتہائی کرم فرماتے ہوئے ، اس کم علم اور بے عمل کو عطا فرمائی تھیں ، کتابوں میں رہ گئیں ۔( خود نوشت سوانح حیات :2)
24 جولائی 1948ءکو مرکزی جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کا قیام لا ہو ر میں عمل میں آیا تو کرم فرما اساتذہ( حضرة العلام مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی ؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ) کے کہنے سے مجھے اس کا ناظم دفتر بنا دیاگیا ، اس کے صدر حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی ؒ تھے۔ پھر19/ اگست 1949ءکو گوجرانوالا سے جب ہفت روزہ الاعتصام جاری ہوا تو اس کا ایڈیٹر مولانا محمدحنیف ندوی ؒ کو مقرر کیا گیا ، کچھ عرصہ بعد مجھے اس اخبار کا معاون مدیر بنادیا گیا، ، یہ میری زندگی کا نیا تجربہ اور نیا دور تھا ، مجھے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی تھی اور یہ دلچسپی بہت جلد میرا پیشہ بن گئی ۔( خود نوشت سوانح حیات :27)

میدان صحافت میں

حالات نے کروٹ لی 15/مئی 1951ءکو مولانا محمد حنیف ندویؒ ریسرچ فیلو کی حیثیت سے ادارہ ثقافت اسلامیہ (لاہور ) سے منسلک ہوگئے ، ان کی جگہ بھٹّی صاحب کو ”الاعتصام ،،کا ایڈیٹر بنادیا گیا ، آپ پندرہ سال تک مرتبہ اس کے ایڈیٹر رہے اس دور میں بے شمار علماءوزعماءسے میل ملاقات اور گفتگو کے مواقع ملے ، جن سے آپ نے خوب استفادہ کیا اور اس دوران آپ نے ”الاعتصام ،، کے کئی نمبر شائع کئے ، جن میں فروری 1956ءکو شائع ہونے والا ” حجیت حدیث نمبر ،، مئی 1957ءکو شائع ہونے والا 1857ءنمبر ،،قابل ذکر ہے ، جو کہ جہاد آزادی کا ایک اہم تحقیقی اور بر صغیر کی سیاسی دستاویز ہے ، اس کے علاوہ آپ نے کئی عید نمبر اور آئین نمبر وغیرہ کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا تھا ، اخبار الاعتصام کے دفتر کے متعلق دلچسپ معلومات دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
بڑے سائز کے سولہ صفحات کے اخبار کا میں خود ہی خاکروب ، خود ہی چپراسی ، خود ہی کلرک ، خود ہی مینجر اور خود ہی ایڈیٹر تھا ، یعنی ان تمام مناصب پر میں اکیلا قابض تھا ۔ الحمد ﷲ رب تعالیٰ نے بڑی توفیق عطا فرمائی تھی ۔
اسی دوران جنوری 1958ءکو اپنا ذاتی اخبارسہ روزہ ”منھاج ،، جاری کیا جو اگست 1959ءتک جاری رہا ۔نیز اسی دوران روزنامہ ”امروز،، روزنامہ ” پاکستان،،میں کئی سال تک مضمون نویسی اور کالم نگاری کیا ۔ نیز مشہور صحافی جناب مجیب الرحمن شامی کے ماہنامہ ”قومی ڈائجسٹ،، میں ایک عرصے تک شخصیات پر سلسلہءتحریر جاری رکھا ۔
پھر حالات نے ایک اور پلٹا کھایا تو 30مئی 1965ءکو اخبار ”الاعتصام ،، کی ادارت سے مستعفی ہوکر چندماہ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ کے صاحب زادے سید ابوبکر غزنویؒ کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ” توحید ،، جاری کیا ، پھر 11ستمبر 1965ءکو اس سے علاحدگی اختیار کرلی ۔

 ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی

12 اکتوبر 1965ءکو مشہور اسلامی تحقیقی ”ادارہ ثقافت اسلامیہ،، نے بغیر کسی درخواست کے ریسرچ سکالر کی حیثیت سے آپ کی خدمات حاصل کرلیں ، یہ وہ ادارہ ہے جو بر صغیر کے معروف محققین کا مرکز تھا ، جن میں اس ادارہ کے ڈائرکٹر شیخ محمد اکرام ،مولانا محمد حنیف ندوی ، سید جعفر شاہ پھلواروی ، رئیس احمد جعفری وغیرہم ہیں ۔ یہ ایک نیم سرکاری ادارہ تھا ، جس میں بھٹی صاحب کو خالص تحقیقی میدان سے واسطہ پڑا ، آپ کے لئے یہ علم کی نئی وادی تھی جس میں آپ کو قدم رنجہ ہونے کا موقع ملا ، اس ادارے میں آکر بھٹی صاحب کے علمی جوہر ایسے کھلے کہ میدان تحقیق کے متوالوں کے لئے علم کا ایک دبستان وجود میں آگیا ، اس ادارے سے آپ بتیس (32) سال وابستہ رہے ، اور اس دوران آپ کے رشحات قلم سے مندرجہ ذیل کتابیں معرض وجود میں آئیں ، ان میں سے کچھ آپ کے شہوار قلم کی عطر بیزیاں ہیں اور کچھ قدیم کتابوں کا ترجمہ ،تحقیق اور تعلیق ۔
 1- الفہرست : محمد بن اسحاق بن ندیم الوراق البغدادی (متوفی 391ھ) کی عربی تالیف ہے ، جو بہت سے علوم وفنون اور ان کی تاریخ پر مشتمل ہے ، نو سو چودہ (914) صفحات پر مشتمل اس کتاب کا آپ نے ترجمہ کیا، بے شمار مقامات پر حواشی لکھے اوراشاریہ بنایا ، یہ کتاب 1969ءمیں ادارہ سے چھپی
فقہائے ہند وپاک (دس جلدوں میں ) 3534 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں آپ نے پہلی صدی ہجری سے لیکر تیرھویں صدی تک کے فقہاءپر مشتمل ہے ، اپنے موضوع کی یہ واحد کتاب ہے جو بر صغیر کے علماءوفقہاءکے بارے میں اردو میں لکھی گئی ۔اس موضوع پر آپ نے پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب ایس اے رحمان صاحب کے مشورے سے قلم اٹھایا۔
 3 برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش : صفحات 224 طبع 1989
4  ارمغان حنیف : آپکے استاذ محترم ،دیرینہ دوست اور رفیق کار مولانا محمد حنیف ندویؒ کے حالات زندگی پر مشتمل۔ صفحات371 طبع 1989-
5) اردو نثر کے ارتقاءمیں علماءکا حصہ  1857 تک کے شمالی ہند کے علماء
پرمشتمل ) یہ ڈاکٹر محمد ایوب قادری صاحب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا ، جسے آپ نے ایڈٹ کیا ، اس پرمقدمہ لکھ کر ”ادارہ ثقافت اسلامیہ،، سے شائع کیا ۔ صفحات 224 طبع 1989-
6 )شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ اور ان کی علمی خدمات :یہ ڈاکٹر ثریا ڈار (سابق چیر پرسن شعبہءعربی اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور)کا Phd کا مقالہ ہے ، جسے آپ نے ایڈٹ کیا اور اسکی عربی وفارسی عبارتوں کا ترجمہ کیا اور اس پر مقدمہ لکھ کر ’ادارہ ثقافت اسلامیہ،، سے شائع کیا ۔ صفحات 325 طبع 1991
۷)شروح صحیح بخاری :یہ محترمہ غزالہ حامد کا ایم اے کا مقالہ ہے جسے بھٹی صاحب نے ایڈٹ کرکے عربی وفارسی عبارتوں کا ترجمہ کیا، نیز ان شروحات کا تذکرہ بھی کیا جسے مقالہ نگار نے ذکر نہیں کیا ،پھر اس پر مقدمہ لکھ کر ’ادارہ ثقافت اسلامیہ،، سے شائع کیا ۔ صفحات 175 طباعت 1991-
۸) پیغمبر انسانیت :نبی اکرم ﷺکی سیرت طیبہ پر مولانا سید جعفر شاہ پھلواروی ؒ کی تصنیف ، جسے بھٹی صاحب نے ایڈٹ کرکے ،عربی عبارتوں کا ترجمہ کرکے اور پھر اس پر مقدمہ لکھ کر شائع کیا،صفحات 550
9- فقہ عمر :مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ؒ کا ترجمہ ، نظر ثانی اور ایڈیٹنگ کے بعد ”ادارہ ثقافت اسلامیہ،، سے شائع کیا ۔ صفحات 400 طباعت 1975
10-  ماہنامہ ”المعارف ،، یہ ’ ’ادارہ ثقافت اسلامیہ،، سے نشرہونے والا ماہانہ رسالہ تھا، جس میں خالص تحقیقی مقالات شائع ہوتے تھے ، بھٹی صاحب اس علمی مجلے کے بائیس سال ایڈیٹر رہے ، اس دوراں آپ نے سینکڑوں اداریے ،مضامین ،کتابوں پرنقد و تبصرے ،حالات حاضرہ پر ”دید وشنید،، کے نام سے دلچسپ وپر مغز تبصرے وغیرہ اس رسالے میں لکھے ۔
اس طرح بتیس سال اس ادارے میں مختلف طرح کی علمی وتحقیقی خدمات انجام دینے کے بعد 16 مارچ 1996 کو اس سے سبک دوش ہوگئے ۔
 ”ادارہ ثقافت اسلامیہ،، میں ملازمت کے بتیس سال کے عرصے میں ،بھٹی صاحب نے ادارہ سے ہٹ کر اپنے طور پر جو کتابیں تصنیف فرمائیں، مقالے لکھے ، اس کی مختصر سی تفصیل حسب ذیل ہے :
۱) جمع وتدوین قرآن: مقالہ برائے اردو دائرہءمعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ۔ طباعت 1976 ۔
۲)فضائل قرآن :مقالہ برائے اردو دائرہءمعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ۔ طباعت 1976
۳) مضامین قرآن :مقالہ برائے اردو دائرہءمعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ۔ طباعت 1976-
۴)واقعات وقصص قرآن:مقالہ برائے اردو دائرہءمعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ۔ طباعت 1976-
۵) اعجاز قرآن:مقالہ برائے اردو دائرہءمعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ۔ طباعت 1976-
ان مقالات کے علاوہ متعدد موضوعات پر اردو دائرہءمعارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کی مختلف جلدوں میں تیس بتیس مقالات شائع ہوئے۔
۶) قصوری خاندان :اس کتاب کا تعلق مشہور وکیل اور مجاہد آزادی حضرت مولانا عبد القادر قصوری مرحوم اور ان کے فرزندان گرامی (مجاہد آزادی مولانا محی الدین احمدقصوری( والد معین قریشی سابق نگران وزیر اعظم پاکستان) مولانا محمد علی ایم اے کینٹب قصوری ، مولانا احمد علی قصوری اور میان محمود علی قصوری مرحوم ( والد خورشید احمد قصوری ، سابق وزیر خارجہ پاکستان) کے تذکرے ، ملک وملت اوروطن عزیز کے لئے ان کی ناقابل فرموش خدمات پر مشتمل ہے ۔ صفحات :۸۰۲۔طباعت ۴۹۹۱ئ۔

بھٹی صاحب کی دیگر کتابیں

 ”ادارہ ثقافت اسلامیہ،، سے علاحدگی اختیار کرنے کے بعد مندرجہءذیل کتابیں تحریر فرمائیں :
۱) لسان القرآن جلد سوم : یہ کتاب قرآن مجید کی توضیحی لغت کے متعلق ہے ، اس کی پہلی اور دوسری جلد مولانا محمد حنیف ندوی ؒ کی تحریر فرمودہ ہیں ،ان کی وفات کے بعد بھٹی صاحب نے اس کتاب کی تکمیل فرمائی۔صفحات:۲۴۳
۲) چہرہ ءنبوت قرآن کے آئینے میں:قرآن کریم کی روشنی میں رسول اکرم 1کی سیرت طیبہ ۔صفحات:326 طبع 1999
3- میاں فضل حق اور ان کی خدمات : یہ کتاب شخصیات کے ذیل میں آتی ہے جیسا کہ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے ۔ صفحات243طباعت1997
4- نقوش عظمت رفتہ : مختلف شخصیات کے تذکروں کا مجموعہ۔ صفحات 640 طباعت1996
5- بزم ارجمنداں :مجموعہ شخصیات ۔صفحات 630 طباعت1999
6- کاروان سلف : تذکرہ شخصیات ۔صفحات 527 طباعت1999
7- قافلہ حدیث :منتخب شخصیات کا دلچسپ تذکرہ صفحات 645 طباعت 2003
8- اسلام کی بیٹیاں:بہت سی صاحب عزم تاریخی خواتین کا تذکرہ ۔صفحات 560 طباعت2003
9- بر صغیر میں اہل حدیث کی آمد :صفحات۸۴۳طباعت۴۰۰۲۔
10- لشکر اسامہ کی روانگی: ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کی عربی کتاب کا ترجمہ ۔صفحات126طباعت2000
11- سیدنا ابوبکر صدیق :سیرت صدیق ؓ پر محمد حسین ہیکل مصری کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ ۔ صفحات620طباعت1998
12- ریاض الصالحین : حدیث کی مشہور ضخیم کتاب کا اردو ترجمہ مع حواشی دوجلدوں میں ۔
13- ارمغان حدیث : معاملات سے متعلق سو منتخب احادیث کا مجموعہ مع ترجمہ وحواشی ۔صفحات400
14- سوانح قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری ؒ۔ سیرت نبوی کی مشہور کتاب ” رحمة للعالمین ،، کے نامور مصنف ، علاوہ ازیں کئی ایک کتابوں کے مصنف اور سابق ریاست پٹیالہ کے سیشن جج ، علامہ محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمة اللہ علیہ کے حالات زندگی کا حسین مرقع ۔ صفحات ۰۵۴ ۔
15- سوانح صوفی عبد اﷲؒ : مدرسہ دار العلوم ماموں کانجن کے بانی ، مشہور مجاہد آزادی اور بزرگ حضرت صوفی عبد اﷲؒ کی سوانح حیات صفحات۰۵۴ طباعت۵۰۰۲۔
16- میاں عبد العزیز مالواڈ بیریٹریٹ لا: بر صغیر کی مشہور سیاسی اور سماجی شخصیت میاں عبد العزیز مالواڈ کا سوانحی خاکہ ۔صفحات ۰۰۶(زیر طبع )
17- بر صغیر کے اہل حدیث خدام قرآن :اس کتاب میں ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے ان اہل حدیث علماءکا تذکرہ ہے جنہوں نے قرآن مجید سے متعلق خدمات انجام دیں ۔صفحات۰۰۷طباعت۶۰۰۲۔
18 محفل خردمنداں :مختلف علمی وادبی شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ۔صفحات ۰۰۶(زیر طبع )
19- دبستان حدیث :بر صغیر کے ان اہل حدیث علمائے کرام کا تذکرہ ،جنہوں نے حدیث یا شروح حدیث یا فتاویٰ پر کام کیا ، یا تدریسی خدمات انجام دیں۔(زیر ترتیب)
اپنی تحریرات کے خلاصے کے طور پر بھٹی صاحب ارشاد فرماتے ہیں :
میری اب تک کی تحریرات حسب ذیل نوعیت کی ہیں :
٭تصانیف وتراجم
٭اخباری مضامین ومقالات
٭اخباری اداریے اور شذرات
٭ بے شمار کتابوں پر تبصرے
٭ بہت سی کتابوں پر مقدمات
یہ تمام تحریریں اگر کتابی سائز میں منتقل کی جائیں تو چالیس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہوں گی ، ریڈیو کی 34۔35 سال کی تقریروں کے بے شمار صفحات اسکے علاوہ ہیں ، متعدد کتابوں کی ایڈیٹنگ (ادارت ) بھی اس میں شامل نہیں۔
یہ تھیں بھٹی صاحب کی کتابوں کی کچھ تفصیل ، جو آج الحمد للہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچی ہوئی ہیں،جو کہ قارئین کونہ صرف متاثر کرتی بلکہ اپنے سحر میںجکڑ لیتی ہیںاور وہ پھر میری طرح انہی کا ہوجاتا ہے ۔ بقول متنبی :
وما الدھر الّا من رواة قصائدی
اذا قلت شعرا اصبح الدھر منشدا
ترجمہ : زمانہ بھی صرف میرے ہی قصائد کا راوی ہے ، جب میں کوئی شعر کہتا ہوں تو سارا زمانہ اسی کو گنگنانے لگتا ہے ۔

ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام

25 دسمبر 1965یکم رمضان المبارک 1385ھ) کو ریڈیو پاکستان لاہور سے بھٹی صاحب کی پہلی تقریر نشر ہوئی ، اس کے بعد ریڈیائی تقریروں کا ایک سلسلہ چلا ، کبھی کبھی ایک دن کے مختلف پروگراموں میں تین تین تقریریں بھی ہوئیں ،کبھی پنجابی پروگرام ،کبھی صراط مستقیم ،کبھی آیات بینات ،کبھی فوجیوں کا پروگرام ،کبھی کتابوں پر تبصرے ،کبھی سوہنی دھرتی ،کبھی کسی مذاکرے میں شمولیت ،کبھی اور کوئی پروگرام ۔
ایک مرتبہ ریڈیو پاکستان لاہور کی طرف سے ”ہفتہءحدیث،، منایا گیا ، اس کے ارباب انتظام نے سات مقرروں کو چنا ، جن میں سے ایک بھٹی صاحب بھی تھے ،ہر تقریر کا دورانیہ 35منٹ کا تھا ، بھٹی صاحب نے” حدیث کی جمع وتدوین عہد نبوی میں ،،کے موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی ، یہ تقریر متعدد مرتبہ ریڈیو سے نشر ہوئی ۔
ایک مرتبہ مسلسل پندرہ روز کا سیرت پروگرام دیا گیا ، جس میں بھٹی صاحب کو سیرت نبوی کی مشہور کتاب ” رحمة للعالمین ،، کی تلخیص پیش کرنی تھی ، یہ روزانہ بیس منٹ کا پروگرام تھا،پھر اسی پروگرام کو اسی انداز سے پنجابی میں پیش کرنے کو کہا گیا ، اس پروگرام کو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں بھٹی صاحب نے بہترین انداز میں پیش کئے ۔
 ریڈیو پاکستان لاہور نے ”زندہ تابندہ ،، شروع کیا تو اس کے منتظمین نے بھٹی صاحب سے اصرار کیا کہ وہ اس پروگرام میں اہم فوت شدہ شخصیات کا تذکرہ کریں ، موصوف نے مسلسل 45 دن یہ پروگرام کیا ، اور اس میں شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی ،مولانا شرف الدین دہلوی ،مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی ، حافظ عبد المنان وزیر آبادی، مولانا عبد الجبار غزنوی رحمہم اللہ جیسی متعدد شخصیات کا تذکرہ فرمایا ۔
بھٹی صاحب کو پہلی مرتبہ 27جولائی 1972ءکوTV پر ”بصیرت ،،پروگرام کرنے کی دعوت دی گئی ، اس کے بعد بارہا آپ نے ٹی وی پر متعدد پروگرام پیش کئے
شرعی عدالت کی طرف سے بھٹی صاحب کو اطلاع آئی کہ وہ آپ کو اہم شرعی مسائل میں مشیر مقرر کرنا چاہتی ہے ، لیکن آپ نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس سے میری تصنیفی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوگی ۔
ایک مرتبہ خود اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین اور بھٹو دور کے سابق وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی مرحوم نے بھٹی صاحب سے انکے دفتر ”ادارہ ثقافت اسلامیہ ،، میں آکر آپ سے کونسل کی رکنیت قبول کرنے کےلئے اصرار کیا ، یہ عہدہ جسکے حصول لئے لوگ واسطے وسیلے لڑاتے ہیں ، لیکن بھٹی صاحب کی درویشی کہ آپ نے اپنی علمی مشغولیتوں کے پیش نظر معذرت کرلی
 یہ تھے بھٹی صاحب کے کچھ مختصر حالات ،آپ نے اپنی عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ دین اسلام کی خدمت،جماعت اہل حدیث اور رجال اہل حدیث کی تاریخ نویسی میں لگادیا ، عموما اہل قلم لکھنے میں کچھ اور دکھنے میں کچھ ہوتے ہیں ،کئی ایسے علماءہیں جن کی تحریروں سے ایک دنیا متاثر ہے ، لیکن جب صاحب تحریر سے ملاقات کی تو وہ عبوسا قمطریرااور انتہائی خشک مزاج ثابت ہوئے ، لیکن ہمارے یہ ممدوح اپنی تحریر کے سچے سفیر ہیں ،جس طرح ان کا قلم زعفران زارہے ، اسی طرح آپ بھی نہایت سادہ اور شگفتہ مزاج ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ، ایسے ”خوش طبع،، لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے شاید اسی لئے میر نے کہا :
 پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
شاید میر مرحوم کو حالات نے ”پراگندہ طبع ،،کردیا ہو، لیکن ہمارے ان ممدوح کو، حالات کی سختی ، بڑھتی عمر ،اشغال کے ہجوم ، اور بے پناہ مصروفیتوں نے” خوش طبع ،، اورشاکر وصابربنادیا ۔سچ ہے :
رنج کا خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
موصوف اپنی ذات پر اﷲ تعالیٰ کے بے پایاں احسان ،کرم اور نوازشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں ایک غریب اور غیر معروف خاندان کا غریب اور غیر معروف فرد ہوں، لیکن اﷲ تعالیٰ نے علمی حلقوں میں بے حد اعزاز بخشا ، میں پوری طرح اس کا شکر ادا بھی نہیں کرسکتا ، بعض دفعہ اس قسم کی باتیں ذہن میں آتی ہیں تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں ۔کہاں یہ فقیر اور کہاں اﷲ عزوجل کی رحمت بے پایاں؟ ،،۔
مرکز دعوة الجالیات (جمعیت اہل حدیث ) کویت نے محترم مولانا بھٹی صاحب کو کویت بلاکر ، جماعت اہل حدیث کے لئے ان کی بے مثال اور شاندار خدمات پر اعزاز عطا کرنے کا فیصلہ کیا،رئیس مرکز محترم شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ نے مولانا موصوف کے کویت آمد کی راہ ہموار کی ،نیز مرکز کے تمام احباب اور شیوخ بالخصوص محترم شیخ عبد الخالق ، محترم عبد اللہ شاد ، حاجی حبیب الرحمن ، حاجی ارشد صاحب ، شیخ بشیر الطیب ،حاجی امین صاحب ،حاجی مظہر ریاض ،جناب ابوکلیم ،جناب ملک جاوید،شیخ کفایت اللہ اور راقم الحروف نے اس کےلئے بھر پور تیاریاں کیں،پھر مورخہ 03-07-2008 بروز جمعرات بعد نماز عشاء، جمعیةاحیاءالتراث الاسلامی قرطبہ کے پروگرام ہال میں ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا، ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، لوگ بھٹی صاحب کو دیکھنے اور ان کی گفتگو کو سننے کے لئے امنڈ پڑے تھے ، شوق کا عالم یہ تھا، کہ گویا :
آہٹ پہ کان ، در پہ نظر ، دل میں اشتیاق
کچھ ایسی بے خودی ہے تیرے انتظار میں
اس مبارک اجتماع میں دینی ، دعوتی اور رفاہی کاموں کی عالمی تنظیم جمعیت احیاءالتراث الاسلامی کے رئیس اور قافلہءخیر کے میر کارواں فضیلة الشیخ طارق سامی سلطان العیسیٰ حفظہ اللہ نے مرکز دعوة الجالیات کی جانب سے ” مورخ اہل حدیث ،، کے خطاب والی شیلڈ محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی خدمت میں پیش کی ،اس اجتماع کو فضیلة الشیخ دکتور وائل الحساوی ، نائب رئیس جمعیت احیاءالتراث الاسلامی ،فضیلة الشیخ فلاح خالد فلاح المطیری رئیس لجنة القارة الہندیہ ،فضیلة الشیخ عبد العزیز المفرج رکن لجنة القارة الہندیہ ،مشہورکویتی محقق فضیلة الشیخ محمد ناصر العجمی ،اور بر صغیر کے معروف عالم دین اور محقق محترم شیخ صلاح الدین مقبول احمد حفظہم اللہ نے ،اپنی آمد اور حاضری سے رونق بخشا۔
اخیر میں ہم بھٹی صاحب کی ساٹھ سالہ علمی ،دینی ،تاریخی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ موصوف کے علم ،قلم اورصحت و زندگی میں برکت عطا کرے ،آپکو دین حنیف کی مزید خدمت کی توفیق دے، اور آپکی شخصیت کو ہمیشہ سدا بہار رکھے۔بقول فضاابن فیضی:
خدا کرے فضا یونہی یہ خواب جاگتے رہیں
یہ خوشبوئیں جواں رہیں گلاب جاگتے رہیں
ہنر ورانِ سنت، آفتاب جاگتے رہیں

اسی یقین وآگہی کا سوز جاوداں ہیں ہم

2 comments:


  1. Assalm o Alaikum wa Rahmatullah wa brakatoho
    Muhtram shaikh sahib!
    I am student of Islamic Studies in Sargodha University.My topic of my thesis is "Punjab maen Uloom ul Quran wa Tafseer per ghair matboa Urdu mwad" please guide me and send me the relavant material for said topic.I will be thankful to you for this kind of act and I will pray for your forgiveness.
    your Islamic brother Rafi ud Din 03336750546,03016998303 email drfi@ymail.com

    ReplyDelete
  2. مولانا کی شائع شدہ کتب کہاں سے مل سکتی ہیں ـ آرٹیکل میں کتب کے حوالہ جات میں پبلشر کا ذکر نہیں ـ

    جزاک الله خیراً ـ

    ReplyDelete