Pages

Thursday, December 25, 2014

موسم سرما مومن کے لیے موسم بہار ہے

ابھی سردی کا موسم ہے، موسم سرما سے متعلق ایک مومن کا موقف کیا ہونا چاہئے اس سے عام طور پر لوگ غفلت میں ہیں، اس لیے موسم سرما کی مناسبت سے بھلائی کے چاہنے والے مسلمانوں بھائیوں کے لئے کچھ باتیں پیش کی جا رہی ہیں۔

سب سے پہلے سردی کا اصل سبب :  اس دنیا میں سردی وگرمی کا ایک محسوس سبب ہے جسے عام طور پر لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں جیسے سورج کی گردش ، موسم سرما یا گرما کا داخل ہونا اور ہوائوں کا چلنا وغیرہ ، لیکن اسکا ایک باطنی سبب بھی ہے جسکا علم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے ، چنانچہ صحیح بخاری ومسلم  میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اشتکت النار الی ربہا فقالت : رب اکل بعضی بعضا ، فاذن لی أن أتنفس فأذن لہا بنفسین نفس فی الشتاء ونفس فی الصیف ، فما وجدتم من حر أو حرور فمن نفس جہنم وما وجدتم من برد أو زمہریر فمن نفس جہنم 
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب ؛ میرے ایک حصے نے دوسرے کوکھا لیا، ہمیں سانس لینے کی اجازت دیجئے لہذا اللہ تعالی نے اسے دوسانس کی اجازت دے دی، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسرا سانس گرمی کے موسم میں ، اسطرح تمہیں جو سخت گرمی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اور جو سخت سردی محسوس ہوتی ہے وہ جہنم کی ٹھنڈی کی وجہ سے ہے ۔
 اس حدیث سے پتہ یہ چلا کہ سردی وگرمی کے اس ظاہر سبب کے علاوہ جو لوگوں کو معلوم ہے اسکا ایک باطنی اورحقیقی سبب بھی ہے اور وہ ہے جہنم کے دو سانس ، یعنی جہنم جب اپنا سانس باہر کرتا ہے تو موسم گرم ہوجاتا ہے اور جب وہی سانس جہنم اندر کرتا ہے تو موسم میں سردی چھا جاتی ہے ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت اورجہنم اس وقت بھی موجود ہیں، البتہ اسکا مکان وجود کہاں ہے یہ صرف اللہ تعالی کو معلوم ہے۔

2- موسم سرما کی مناسبت سے دوسری ہدایت یہ ہے کہ فطری اورطبعی چیزوں کو برا بھلا مت کہو :
چونکہ سردی وگرمی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ، ان میں سختی اورگرمی اللہ تعالی کے حکم سے ہے لہذا انھیں گالی دینا اور برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے ، چنانچہ بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق ایک حدیث قدسی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :یوذینی ابن آدم یسب الدھر وانا الدھر اقلب اللیل و النہار۔ آدم کابیٹا مجھ کو دکھ دیتا ہے ، اسطرح کہ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے ، حالانکہ میں زمانہ ہوں ، رات ودن کو میں ہی پھیر تا ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوا اور اس طرح کی دوسری فطری چیزوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا،لہذا اگر کوئی شخص سخت یا تیز و تند ہوا دیکھے تو برا بھلا کہنے کے بجائے یہ چاہئے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اس ہوا کے شر سے اسے محفوظ رکھے اور اسمیں جو بھلائی کا پہلو ہو اس سے محروم نہ کرے ۔

3- اب آئیے ہم یہ جانتے ہیں کہ موسم سرما میں مومن کے لئے خیر کے پہلو کیا ہیں:

ا – موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کا پہلا پہلو روزہ رکھنا ہے: روزہ کو اسلام میں جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، اب اگر غور کیا جائے تو نیکیوں پر حریص مسلمان موسم سرما میں ان فضیلتوں کو بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ، کیونکہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا ہوتا ہے ، موسم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو بھوک و پیاس کا احساس کم اور کم ہی ہوتا ہے ، لہذا بڑی آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے مسلمانوں کی توجہ اسی طرف دلاتے ہوئے سنن ترمذی کی روایت کے مطابق نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الغنیمۃ الباردۃ الصوم فی الشتاء ٹھنڈی کی {بڑی آسان } غنیمت یہ ہے کہ سردی کے موسم میں روزہ رکھا جائے ۔
یعنی جسطرح وہ مال جو اللہ کے دشمنوں سے حاصل ہو اور اسمیں لڑائی نہ کرنی پڑے ، مٹھ بھیڑ نہ ہو اور نہ ہی جان کا خطرہ مول لینا پڑے تو اس سے ایک انسان کسقدر خوش ہوتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی طرف کسقدرراغب ہوتا ہے اسی طرح سردی کے موسم میں روزہ بلا مشقت و پریشانی کے رکھا جا سکتا ہے ۔

ب - موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کا دوسرا پہلو تہجد کی نماز ہے:
تہجد اور شب بیداری اللہ تعالی کےنیک بندوں اور جنت کے وارثین کا شیوہ رہا ہے ، ارشاد ربانی ہے ، وکانوا قلیلا من اللیل ما یہجعون و با لآ سحارھم یستغفرون۔{الذاریات :18،17 } وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے ۔ قابل غور ہے کہ موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لئے بہت  مناسب ہیں کیونکہ موسم سرما کی راتیں اسقدر لمبی ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے  جگ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے بہت سے نیک بندے موسم سرما کی آمد پر خوش ہوتے تھے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے :سردی کو خوش آمدید ، اس موسم میں برکتیں نازل ہوتی ہیں ، اس طرح کہ تہجد کے لئے رات لمبی ہوجاتی ہے اور روزہ رکھنے کے لئے دن چھوٹا ہوجاتا ہے۔
ایک اور بزرگ حضرت عبید بن عمیر رحمہ اللہ موسم سرما کی آمد پر فرماتے : اے اھل قرآن تلاوت قرآن کے لئے رات لمبی ہو گئی ہے اورر وزہ رکھنے کیلئے دن چھوٹا ہوگیا ہے لہذا اس موسم میں دن کو روزہ اور رات میں تہجد کا خصوصی اہتمام کرو۔ 

ج – موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کا تیسرا پہلو صبر ہے:
وہ کیسے ؟ وہ اس طرح کہ تہجد ہو یا روزہ رکھنا ہو دونوں عبادتوں میں سردی سخت رکاوٹ بنتی ہے اور اسکے لئے صبر اور برداشت کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا جو شخص اس صبر میں کامیاب ہو گیا وہ سردی کے موسم میں تہجد بھی پڑھ لیگا اور روزہ بھی رکھ لیگا ۔ کیونکہ سردی کے موسم میں نرم وگرم بستر سے اٹھنا ، تہجد کے لئے وضو کرنا ، سردی کی حالت میں نماز میں کھڑے ہونا ، اور روزہ رکھنے کے لئے سحری کے وقت میں کچھ کھانا ، اسی طرح جسم میں پانی وکھانے کی کمی کی وجہ سے جب سردی زیادہ محسوس ہوتو اسے برداشت کرنا ، یہ سب کچھ بغیر صبر کے ممکن نہیں ہے۔اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ برداشت کرے اور عبادت کی ادائیگی پر صبر کرے۔

د – موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کا چوتھا پہلواچھی طرح سے وضو کرنا ہے :
اگر کوئی شخص وضو کو مکمل اور اچھی طرح سے کرتا ہے تو اسکے لئے حدیثوں میں بہت بڑی خوشخبری ہے ، پھر اگر یہی وضو اور اسکا پورا پورا کرنا سردی کے موسم اور کراہت نفس کے باوجود ہوتو اسکا ثواب مزید بڑھ جاتا ہے ۔
صحیح مسلم کی روایت ہے، اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:  أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ ». قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ « إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ  
کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتلاوں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی تمھارے گناہ معاف کردے اور تمھارے درجات بلند کردے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ؛ کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا : سردی کی مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم بڑھا نا ، پس یہی رباط ہے ، یہی رباط ہے ۔
گویا عام حالت میں وضو سے تو صرف گناہ معاف ہوتے ہیں ، البتہ سردی کے موسم میں اچھی طرح وضو کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ جنت میں بندوں کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ ٹھنڈی کے باوجود اچھی طرح سے وضو کرے۔

ھ – موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کا پانچواں پہلوصدقۃ و خیرات ہے :
اللہ کی نظر میں صدقے کی بڑی اہمیت ہے، اللہ کے بنک میں ایک کا دس بلکہ سات سو تک ملتا ہے، پھر اگر یہی صدقہ ضرورت کے وقت ہو تو اسکی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، خاص کر سردی کے موسم میں جبکہ لوگ سردی سے بچنے کے لئے، کپڑے، گرم لباس اور لحاف وغیرہ اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں تو ایسے ایام میں صدقہ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے، اگر ہم غور کریں تو ہمارے پڑوس میں ، ہمارے علم میں اور ہمارے آس پاس کے علاقے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جنکے پاس سردی سے بچنے کے لئے نہ کپڑے ہیں اور نہ لحاف اور نہ رضائی کا انتظام جبکہ ہم الحمدللہ ہر طرح سے خوشحال ہیں۔اگرچہ آپ کو ابھی زیادہ ٹھنڈی نہ لگ رہی ہو لیکن اپنے ملک کے غریبوں کو دیکھیں کہ ان کا کیا حال ہے۔
ابن جوزی نے صفۃ الصفوۃ میں مشہور تابعی صفوان بن سلیم رحمہ اللہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ ٹھنڈی کے موسم میں ایک رات مسجد نبوی سے باہر نکلے، دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے اور اسکے پاس اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے کپڑے نہیں ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنی قمیص اتاری اور اس شخص کو پہنادیا ، اسی رات بلاد شام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ صفوان بن سلیم صرف ایک قمیص صدقہ کرنے کی وجہ سےجنت میں داخل ہوئے، وہ شخص اسی وقت مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوا اور مدینہ منورہ آکر صفوان بن سلیم رحمہ اللہ کا پتہ پوچھا اور ان سے اپنا خواب بیان کیا۔ {صفۃ الصفوۃ 2/ 154}

و – موسم سرما میں مومن کے لیے خیر کا چھٹا اور آخری پہلو جہنم کی یاد ہے :
ابھی آپ نے حدیث سنی کہ کڑاکے کی ٹھنڈی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح سخت سردی وگرمی کا موسم انسان کو جہنم کی یاد دلاتا ہے کیونکہ ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اس روئے زمین پر سردی و گرمی کی سختی کا اصل سبب جہنم ہے،لہذا جب انسان کو سخت اور ناقابل برداشت گرمی محسوس ہوتو اسے فورا جہنم کی گرمی و تپش یاد آجاتی ہے او ر وہ اپنے رب سے جہنم سے بچنے کی دعا کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اگر ایمان تازہ ہو معمولی گرمی بھی مومن کو جہنم کی یاد دلاتی ہے،
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لطائف المعارف میں لکھتے ہیں کہ کسی نیک بندے نے غسل کیلئے حمام کا قصد کیا ، اور جب وہ حمام میں داخل ہوئے اور سرپر گرم پانی پڑا تو محسوس کیا کہ یہ پانی کچھ زیادہ ہی گرم ہے لہذا پیچھے ہٹے اور رونا شروع کردیا ، پوچھنے پر وجہ بتلائی کہ مجھے جہنمیوں کے بارے اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد آگیا کہ : یصب من فوق رووسہم الحمیم {الحج :19}انکے سر کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا {لطائف المعارف 547}
جی ہاں جہنم میں جہاں گرمی کا عذاب ہے وہیں ٹھنڈی کا بھی عذاب ہے، جب کافر آگ میں جلتے جلتے تنگ آجائیں گے اور رب سے ٹھنڈی کا مطالبہ کریں گے تو اللہ تبارک وتعالی ایک ٹھنڈی ہوا چلائے گا جس کی سخت سردی کی وجہ سے انکی ہڈیاں پھٹ جائیں گی ۔
لہذا سخت سردی کے موسم میں ایک مومن کو چاہئے کہ وہ جہنم کو زیادہ سے زیادہ یاد کرے اور اس سے بچنے کی دعا کرے چنانچہ مسند احمد کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
'' ما سأل رجل مسلم الله عز و جل الجنة ثلاثا الا قالت الجنة اللهم أدخله الجنة ولا استجار من النار مستجيرا ثلاث مرات الا قالت النار اللهم أجره من النار ''
جو مسلمان بھی تین بار اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرتا ہے تو جنت بطور سفارش اللہ تعالی سے عرض کرتی ہے کہ اے اللہ اس بندے کو جنت میں داخل فرمادے اور جو مسلم بندہ اللہ تعالی سے تین بار جہنم سے پناہ چا ہتا ہے تو جہنم کہتا ہے کہ اے اللہ تو اسے جہنم سے پناہ دے ۔ ( یہ مقالہ شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ کی تحریر کی تلخیص سے عبارت  ہے) 

 

2 comments: