Pages

Wednesday, October 3, 2012

ایمان کیاہے؟



ایمان کیاہے؟ ایمان کہتے ہیں کسی چیز پر دل کا یقین ہونا اوراس کی تصدیق کرنا ۔اورشریعت میںایمان سے مراد اللہ کی ذات وصفات اوراس کی الوہیت پرپختہ یقین ہوناہے ۔ ایمان وہ بنیادہے جس پر دین قائم ہوتا ہے ،اوراعمال کی قبولیت کے لیے بھی ایمان کا صحیح ہونا ضروری ہے ،جس طرح انسانی جسم میں سر کو اوردرخت میں تنے کواہمیت حاصل ہے کہ اگر سر نہیں تو انسانی جسم کا وجود نہیں اورتنانہیں تو درخت کا وجودنہیں اسی طرح اگر انسان کے اندر ایمان نہیں تو اسلام کا وجود ہی نہیں ہے ۔ 

یہی وجہ ہے کہ سارے انبیاءورسل نے اپنی اپنی قوم کوسب سے پہلے ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی اورغیراللہ کی عبادت سے منع کیا ،خوداللہ کے رسول ا مکہ میں تیرہ سال تک لگاتارلوگوںکوتوحید اوراصلاح عقیدہ کی طرف بلاتے رہے ۔ اُسی طرح ہرزمانے میں دعاة اورمصلحین نے لوگوںکو توحید کی طرف بلایااوراصلاح عقیدہ کی دعوت دی ۔ 

ایمان ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جو مسلمان کو شکوک وشبہات اورگمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔انسان کے اندر جو گمراہی پیداہوتی ہے ،انسان جو الگ الگ گروہوںمیں بٹ جاتا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے شروع میں عقیدہ کو بیس نہیں بنایا۔ اگر عقیدہ ٹھیک ہوجائے تو انسان کے اندر انحرا ف نہیں آسکتا ۔ کجی نہیں آسکتی ۔گمراہی نہیں آسکتی ۔

ایمان ایک زلزلہ ہے جو انسان میں داخل ہوتے ہیں اتھل پتھل مچادیتا ہے ،اس کی زندگی میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے جس سے اس کی زندگی صحیح سمت میں لگ جاتی ہے ۔ اب وہ بالکل آزاد نہیں رہتا ،اس کا کوئی قدم غلط نہیں اٹھتا ،اس کی آنکھ ،اس کا کان ،اس کا ہاتھ ،اس کا پیر ،اس کا دماغ سب اللہ اوراس کے رسول ا کے تابع ہوجاتا ہے ۔ 

ایمان ایک سدابہاردرخت ہے جو کبھی مرجھاتانہیں ،ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے ،اللہ پاک نے فرمایا: ضرب اللہ مثلا کلمة طیبة کشجرة طیبة ا ¿صلھا ثابت وفرعھا فی السماءتوتی ا ¿کلھا کل حین باذن ربھا ۔ایمان ایک ایسے پھلدار درخت کی مانند ہے جس کی ستر سے زیادہ شاخیںہیں ،صحیح مسلم کی روایت میں ہے اللہ کے رسول انے فرمایا: ایمان کی ستر سے اوپر شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لاالہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اورحیا وشرم بھی ایمان کی شاخ ہے ۔ 

یہ ایمان ہے جس کی بنیاد پر اللہ رب العالمین بلندی عطا فرماتا ہے اللہ پاک نے فرمایا: وا ¿نتم الاعلون ان کنتم مو ¿منین (آل عمران 139) تم ہی سربلند رہوگے اگر تم صحیح معنوںمیں مومن رہے ۔اگر تمہارے اندر صحیح ایمان رہا تو اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ زمین کی خلافت کے حقدار تم ہی ہوگے ،حکومت کے مالک تم ہی ہوگے ،دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ تم ہی کرو گے ، دنیا تمہارے نام سے لزر اٹھے گی ،تم کسی سے خائف اورمرعوب نہ ہوگے ۔ 

لیکن آج معاملہ اس کے بالکل اپوزٹ ہوچکا ہے ،آج ہم دنیا سے ڈرتے ہیں ،دنیا ہم سے نہیں ڈرتی ،جنہیں ہم سے کل آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی آج وہ ہمارے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ،وجہ کیا ہے ؟ ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کام کے نہیں .... جب ہم کام کے مسلمان تھے تو انسان تو انسان درندے بھی ہم سے ڈرتے تھے ۔

جی ہاں!ایمان سے ہی ہمیں دنیامیں پرسکون زندگی مل سکتی ہے اورآخرت کی کامیابی سے ہمکنارہوسکتے ہیں اللہ پاک نے سورہ نحل میں فرمایا: من عمل صالحا من ذکر ا ¿وا ¿نثی وھو مو ¿من فلنحیینہ حیاة طیبة ولنجزینھم ا ¿جرھم با ¿حسن ماکانوایعملون (النحل 97) ”جوشخص نیک عمل کرے ،مردہویاعورت یشرطیکہ ایمان والا ہوتواسے ہم بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے ،اوران کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے وعدہ کیا ہے کہ جو مردوعورت نیک عمل کرے اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی عطاکریں گے اورآخرت میں ان کے اعمال کا بہتر بدلہ دیں گے لیکن شرط یہ رکھی کہ عمل کرنے والا ایمان والا ہو ۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ دنیااورآخرت دونوںجگہ کی کامیابی کے لیے ایمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ 

اگر ایک انسان ایمان والا ہو ،اس کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوںکا بھی ارتکاب کرتا ہو ،اوراسی حالت میں اس کی موت ہوگئی ،توبہ نہ کرسکا ،تو اگر اللہ نے چاہا تو اسکے گناہوں کی اسے سزادے گا اور پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی ایمان ہوگا تو اسے بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیاجائے گا ۔ سبحان اللہ !یہ ایمان کی اہمیت ہے کہ رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان رکھنے والا شخص ایک دن جہنم سے ضرور نکلے گا ۔ 

محترم ناظرین ! جب ایمان اسقدر اہمیت رکھتا ہے کہ دنیا اورآخرت میں کامیابی اورنجات اسی پر منحصر ہے تو اب ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہورہی ہوگی کہ جانیں ایمان کا مفہوم کیا ہوتا ہے اوراس کے ارکان کیا ہیں : 

ایمان تین چیزوں کا نام ہے قول باللسان واعتقادبالجنان وعمل بالارکان زبان کا اقرار ،دل کی تصدیق اور اعضاءکا عمل ۔ یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرارکرنا ،دل سے ان کی تصدیق کرنا مثال کے طورپر زبان سے اقرار کرنا کہ اللہ تعالی ہی اکیلا رب ہے ،اس کے اسماءوصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے اسی طرح دل میں بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی ہی خالق ومالک اورعبادت کے لائق ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں اوروہ اپنے اسماءوصفات میں بھی یکتا ہے ۔

اورچونکہ ایمان کے ضمن میں عمل بھی داخل ہے اس لیے نیک عمل کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی آتی ہے ۔ انماالمو ¿منون الذین اذاذکر اللہ وجلت قلوبھم وادا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً (سورہ انفال ۲) سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اورجب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اوروہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ 

ایمان صرف دل کے اقراراورزبان کی تصدیق کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے ،بغیرعمل کے ایمان ایسی کنجی ہوگی جس میں دندانے نہ ہوں،جس طرح بغیر دندانے والی کنجی سے تالا نہیں کھلتا ہے ،اسی طرح ایسا ایمان جو عمل سے خالی ہو اس سے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا 

زبان سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں 

بلکہ اللہ تعالی نے سورہ العصر میں قسم کھاکر کہاہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوںکے جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ،والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر قسم ہے زمانے کی ،بیشک انسان گھاٹے میں ہے ،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ،اورنیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اورصبر کی تاکید کرتے رہے ۔ 

قرآن نے ایمان اورعمل کے درمیان جو ربط قائم کیا ہے اس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے ،دیکھئے قرآن کریم میں کم وبیش 38 جگہوںپر یہ الفاظ آئے ہیں آمنوا وعملوا لصالحات ایمان لائے اوراعمال صالحہ کئے ،ایک صحابی اللہ کے رسول اسے پوچھتے ہیں کہ یارسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی نصیحت فرما دیجئے جس پرعمل کرکے میںجنت پالوں۔ آپ نے فرمایا: قل آمنت باللہ ثم استقم یوںکہو!میں اللہ پر ایمان لایا،پھر اس پر استقامت اختیار کرو، استقامت کہاں ہوتی ہے ؟ دعوے میں نہیں ہوتی ، عمل میں ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول ا فرماتے ہیں الدین المعاملة معاملات کے درست ہوجانے کانام دین ہے ۔ ایمان صرف دعوے کا نام نہیں ایمان رویے (Attitude) کانام ہے ،ایک سلوک اورایک مسلسل عمل کا نام ہے ۔ ایمان سنی سنائی چیز کانام نہیں ،ایمان وراثت میں ملی ہوئی چیز کانام نہیں ،وراثت میں مکان ،دکان ،پلاٹ ،زمین پیسے مل جائیں گے مگر وراثت میں ایمان نہیں ملے گا ۔ ہم اتفاقیہ مسلمان ہیں ،لیکن اصل مسلم وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہو ۔Muslim by choise not by chance۔اس لیے اگر ایمان صحیح ہے تو اس میں عمل بھی آجائے گا ۔

ایمان جب ٹھیک ہوتاہے تواس کا اثر زندگی کے سارے معاملات پر پڑتا ہے ،اورعمل کے طورپر ایمان کی خصلتیںظاہرہوتی ہیں،کیاآپ جانتے ہیں کہ ایمان کی خصلتیں کیا ہیں ؟ ایمان کی خصلتوںمیں سے پہلی خصلت ہے :

رسول اللہ اسے محبت :بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول انے فرمایا: لایو ¿من ا ¿حدکم حتی ا ¿کون ا ¿حب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میںاس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے لڑکے اورتمام لوگوںسے زیادہ محبوب نہ ہوجاو ¿ں۔

ایمان کی دوسری خصلت ہے مومنوںسے محبت : صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول ا نے فرمایا: تم جنت میںاس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آو ¿اورتم ایمان اس وقت تک نہیں لاسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو،کیا میں تم کوایسی چیز نہ بتاو ¿ںجسے اگرتم کروگے توآپس میں محبت بڑھے گی تم آپس میں خوب سلام کیا کرو۔ 

اوردوسری حدیث میں اللہ کے رسول انے فرمایا: لایو ¿من ا ¿حدکم حتی یحب لا ¿خیہ مایحب لنفسہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔“ 

ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ ہمسایہ کی عزت کی جائے ،مہمان کا احترام کیاجائے اورصرف اچھی بات کہی جائے : بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول انے فرمایا:جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتاہووہ بھلی بات کرے یاخاموش رہے ،اورجوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے ،اورجوشخص اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے “۔ 

اللہ کے رسول انے تو یہاں تک فرمایا: واللہ لایو ¿من واللہ لایو ¿من واللہ لایو ¿من ! اللہ کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ وہ شخص مومن نہیں ،وہ شخص مومن نہیں ،وہ شخص مومن نہیں ،صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ !کون مومن نہیں ؟ فرمایا: الذی لایا ¿من جارہ بوائقہ ۔وہ شخص جس کی شرارتوںسے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔آپ انے یہ بھی فرمایا: مومن وہ نہیں ہے جو پیٹ بھر کرکھائے اوراس کے برابرمیں اس کا پڑوسی بھوکاہو ۔ 

ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھے کردار کا حامل ہو ،چوری نہ کرے ،شراب نہ پئے ،زنا نہ کرے ،خیانت نہ کرے ،کسی کو دھوکہ نہ دے ،رشوت نہ لے ،تب ہی تو اللہ کے رسول ا نے بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق فرمایا: کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا ،شرابی جب شراب پیتا ہے تواس وقت مومن نہیں ہوتا ،چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔ 

ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھائی کاحکم دے اوربُرائی سے روکے ،صحیح مسلم کی روایت ہے ،اللہ کے رسول ا نے فرمایا: تم میں سے جوشخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے ،اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں براجانے اوریہ ایمان کا ادنی درجہ ہے “۔

محترم ناظرین ! یہ ہیں ایمان کی چندخصلتیں ،جب یہ خصلتیں انسان کے اندرپیدا ہونے لگتی ہیں تو اسے ایمان کا مزہ ملنے لگتا ہے ،ایمان کی چاشنی نصیب ہونے لگتی ہے ،جانتے ہیں ایمان کی چاشنی کیا ہے ؟ صحیح مسلم کی روایت ہے ،اللہ کے رسول انے فرمایا: ذا ق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدارسولا ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوا اوراسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوا اورمحمدا کو اپنا رسول ماننے پر راضی ہوا ۔ 

اورجب ایک بندہ مومن اللہ کو اپنا رب مان لیتا ہے ،اسلام کو اپنادین تسلیم کرلیتا ہے اورمحمداکو اپنانبی مان لیتا ہے تووہ ایمان کی لذت پانے کے ساتھ ساتھ ایمان کی حلاوت اوراس کی مٹھاس بھی پاتاہے ۔جانتے ہیںایمان کی مٹھاس کیا ہے ؟بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول انے فرمایا: ثلاث من کن فیہ وجدبھن حلاوة الایمان جس کے اندرتین چیزیں ہوںوہ ایمان کی مٹھاس پاتا ہے ،ایک یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اوراسکے رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں،دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کی خاطر محبت رکھے،تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اسے ایسے ہی ناپسند ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment