Pages

Thursday, November 8, 2012

بلند ہمتی کا معیار



بلند ہمتی کااصل معیار یہ ہے کہ انسان جنت کا رسیا بنا رہے ،اس کی ساری تگ ودو جنت کے حصول کے لیے ہو،وہ دنیا کمارہاہو لیکن اس کے پیچھے بھی اس کا مطمح نظر جنت ہو۔کیوں؟اس لیے کہ دنیا دارفانی ہے ،چند دنوں کا کھیل ہے ،یہ دراصل مردار ہے اور شیر کبھی بھی مردار پرواقع نہیں ہوتا،ہمیشہ کی زندگی آخرت کی زندگی ہے اوروہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے،اس لیے جس کی کوشش جنت کے لیے ہوگی وہی بلند ہمت ہے ۔یہاں پر ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ کفارومشرکین جنہوںنے دنیا کمانے میں پوری طاقت صرف کردی ہے اصل میں وہ بلند ہمت نہیں،کفارومشرکین کو بلند ہمت نہیں کہاجاسکتا ۔کہ ان کی کوششیں دنیا کے لیے صرف ہورہی ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: ومن یشرک باللہ فکا ¿نما خرمن السماءفتتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق ۔ اضرب لھم مثل الحیاة الدنیا کماءا ¿نزلناہ من السماءفاختلط بہ نبات الا ¿رض فا ¿صبح ھشیما تزروہ الریاح ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول  نے فرمایا: ان اللہ یبغض کل جعظری ،جوّاظ سخّاب فی الا ¿سواق،جیفة باللیل حماربالنھار،عالم با ¿مرالدنیا جاھل با مر الآخرة (رواہ ابن حبان فی صحیحہ وصححہ الا لبانی فی صحیح الجامع) ”بیشک اللہ تعالی مبغوض رکھتا ہے ہر متکبرسخت کلام کو جو مالوںکو جمع کرتااورروک کررکھتا ہے ،جوبازاروںمیںچلاتااورجھگڑنے میں لگاہوتاہے،جو رات میں مردار بنارہتا اور دن میں گدھا ہوتا ہے ،دنیا
کے معاملے کا جانکار اورآخرت کے معاملے سے جاھل ہوتا ہے ۔ “
یہ حدیث سراسر منطبق ہورہی ہے ان کفارومشرکین پر جو دنیا کے معاملے میں بیحد چالاک ہوتے ہیں جبکہ آخرت سے غافل اور لاپرواہ ہیں اللہ تعالی نے سچ فرمایا: یعلمون ظاہرا من الحیاة الدنیا وھم عن الآخرة ھم غافلون ۔یعنی وہ دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کا ظاہر بھی ہے اورباطن بھی ہے ،دنیا کا ظاہر وہ ہے جسے جاہل جانتے ہیں کہ اس کی زینتوںاور نعمتوں سے لطف اندوز ہولیاجائے ، اوراس کا باطن اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ فی نفسہ غلط نہیں بلکہ اس میں انسان اطاعت کاکام کرتا ہے ۔اورکفار میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو جنت کے حصول میں تو تھکتے ہیں لیکن جنت کا راستہ معلوم نہیں جس کی وجہ سے ان کی تھکاوٹ بے فائدہ ہے ۔اصل میں ان کی ہمت اس قدرپست ہے کہ دنیا کے معاملے میں بڑے چالاک لیکن آخرت کے معاملے میں حق کی تلاش میں نہیں نکلے ۔ایسے ہی لوگوںکے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:﴾ عاملة ناصبة تصلی نارا حامیة ﴿ ﴾ ا م تحسب ا ن ا کثرھم یسمعون ا ¿ویعقلون ان ھم الا کالانعام بل ھم ا ضل سبیلا ﴿
اسی وجہ سے اللہ والوں نے دنیا کو حقیرسمجھا اور اپنے مقاصد کی تکمیل میں دنیا کوحائل نہ ہونے دیا۔ یحیی بن یحییٰ اندلس سے مدینہ امام مالک کے پاس طلب علم کے لیے گئے تھے ، امام مالک ان کی ذہانت وفطانت کے قائل تھے ،ایک دن وہ امام مالک کے درس میں بیٹھے تھے کہ اعلان ہوا : ہاتھی آیا،ہاتھی آیا، سارے لوگ ہاتھی دیکھنے چلے گئے لیکن یحیی اپنی جگہ بیٹھے رہے ۔امام مالک نے ان سے کہا : تم کیوںنہ گئے ، انہوںنے کہا:میںآپ کے پاس آپ سے سیکھنے کے لیے آیاہوں،ہاتھی دیکھنے نہیں آیا“۔ امام مالک نے ان کی ہمت کی داد دی اورانہیں ”عاقل ا ¿ھل الاندلس “ کا خطاب دیا۔
عمرفاروق ؓ شام کا سفر کررہے ہیں،ابوعبیدہ بن جراح ساتھ تھے،جب شہرکے قریب پہنچے توایک جگہ پانی عبور کرنے کا موقع آیا،عمرفاروق اونٹ سے اُترے ،اپنے جوتے کواُتارا،اپنے کندھے پر رکھا اوراونٹ کا لگام پکڑکرپار کرنے لگے ۔ابوعبیدہؓ نے کہا : امیرالمو منین! آپ جوتے اُتارکرکندھے پر رکھ رہے ہیں اوراونٹ کا لگام پکڑکر پار کر رہے ہیں ،عیسائیوں نے دیکھ لیا تو ہمارے لیے یہ بات خوشی کی نہ ہوگی ۔ عمر فاروق ؓ نے فرمایا: ابوعبیدہ! تیرے علاوہ اگرکسی دوسرے نے یہ بات کہی ہوتی تو میں اسے امت محمدکے لیے عبرت کا سامان بنادیتا ۔ انا کنا ا ¿ذل قوم فا ¿عزنا اللہ بالاسلام ،فمھما نطلب العز بغیرماا ¿عزنا اللہ بہ ا ¿ذلنا اللہ
جب ایک مورخ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ دیکھ کر عش عش کرنے لگتا ہے کہ مکہ کی سرزمین پر ایک انسان توحید کی دعوت لے کر نکلتا ہے ،ہرطرف سے اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ،اس کے پیغام کو قبول کرنے والوںکو اذیت ناک نکلیفیں دی جاتی ہیں،ایک دن اوردو دن نہیں بلکہ لگاتار ۱۲ سال تک ،پھر جب مکہ فتح ہوتا ہے اور کفارومشرکین کی عام معافی کا اعلان کردیاجاتا ہے تو لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگتے ہیں ،پھر یہی اسلام کے سورما اسلام کی دعوت کو لے کر پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔یہاں تک کہ وقت کی دوسپرپاور طاقت قیصر وکسری کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں ۔ اسلام کے ان سورماو ¿ںکی عظمت کا راز محض اللہ کی مدد نہ تھا بلکہ انہوںنے خودکو ان صفات اور اساس سے مسلح کیا تھا جس نے ان کے اندر انسانی قیادت کی اہلیت پیداکی ۔
عمروبن عاص ؓ نے جب روم کے بادشاہ مقوقس کے پاس بات کرنے کے لیے دس آدمیوںکو بھیجا تو ان میں عبادہ بن صامت کو گفتگو کرنے کی ذمہ داری دی گئی جس نہایت سیاہ تھے ،مقوقس کے دربار میں مسلمان آئے ،عبادة بن صامت سے سے آگے تھے ،مقوقس نے ان کی لمبائی اورسیاہی دیکھ کر حقارت سے بولا”نحّوعنی ذلک الا ¿سودوقدموا غیری یکلمنی “ ہمارے بیچ میں کالے اور گوروںمیں کوئی امتیاز نہیں ہوتا ،ہمارے بیچ فضیلت کا معیار عقل اوردانائی ہوتا ہے رنگ ونسل نہیں“جب سارے صحابہ بضدرہے کہ ہمارے متکلم عبادہ ہی ہوںگے توآپ کو گفتگوکرنے کا موقع دیاگیا: آپ نے فرمایاکہ ہمارا مطلوب دنیا نہیں بلکہ ہم آخرت کے راہی ہیں۔ اس نے کہا : ہم سمجھتے ہیں کہ تم سب یہاں کیوںآئے ہو،فقروفاقہ ہے جو تمہیں یہاں لے آیا ہے اس لیے ہم تم سب کو دو دو دینار دیتے ہیں،تمہارے امیر کو سودینار اور تمہارے خلیفہ کو ہزار دینار دیتے ہیں ،اسے لے لو اور اپنے ملک لوٹ جاو ¿ ورنہ تمہارے وہ حالت ہوگی جس کی تم طاقت نہیں رکھ سکتے“۔ آپ نے نہایت اطمینان اوروثوق سے فرمایا: اے بادشاہ! تمہیں تمہارا نفس اور تمہاری فوج دھوکے میں نہ ڈالے ،ہمیں تمہاری تعداد اورفوج کا کوئی خوف نہیں ،اگر ہم میں سے ہرایک شہید کردیاجائے تویہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوگی اوریہی ہماری تمنا ہے ،ہم میں سے ہرآدمی صبح شام شہادت کی تمنا کرتا ہے ،لہذا خودپر غورکرلو ،اورتمہارے لیے صرف تین اختیارہے یا تواسلام قبول کرلو،یاجزیہ پر راضی ہوجاو ¿ یا ہمارے اورتمہارے بیچ جنگ ہی فیصلہ کرے گی “۔
اہل فارس پر جب فوج کشی کی گئی توفوج کے سپہ سالارسعد بن ابی وقاص ؓ سے رستم نے مطالبہ کیا کہ اپناایلچی بھیجو۔آپ نے مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا:
نوجوانوںاور اپنے بچوںکے اندر ہمت کیسے پیدا کریں ؟
یہ بہت بڑا سوال ہے کہ جب ہم ہمت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں تو آخر وہ کونسا طریقہ اختیار کریں کہ ہمارے نوجوان بلندہمت اور اعلی عزم وارادہ کے ملک بنیں ؟۔ اس سلسلے میں ہم ذیل میں چند گذارشات پیش کررہے ہیں امید کہ وہ ہمارے لیے معاون بنیں گے
(۱) اللہ پاک سے مددکی طلب اوردعا کا اہتمام : ہم جس قدربھی پلاننگ کرلیں اوراونچا سے اونچا خواب دیکھ لیں ،اگراللہ کی توفیق حاصل نہ ہوسکی تو ہم ناکام ہیں ۔کیونکہ دلوںکا مالک اللہ ہے وہ جیسے چاہتا ہے ہمارے دلوںکو پھیرتا رہتا ہے ۔
(۲) نیک صحبت: کوئی بھی مثبت نتیجہ نیک صحبت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ نیک صحبت کا فائدہ ہ ہوتا ہے کہ بھولنے پر یاددہانی کی جاتی ہے ،پیش قدمی کرنے پر یاد دہانی کی جاتی ہے ، ارادہ کرنے پر مدد کی جاتی ہے ۔ اورنیک صحبت کوئی قسمت کا معاملہ نہیں ہے کہ خودبخود انسان کے اندر پیدا ہوجائے بلکہ اس کے لیے مربی کو چندوسائل اپنانے ہوںگے :
مثلاً بچپن سے بچے کو اچھا ماحول فراہم کرنا اورمسجد سے اس کا تعلق جوڑنا ،ان کے اندرنیک لوگوںکے ساتھ بیٹھنے کی خواہش پیدا کرنا، بچوںکے دوست واحباب پرکڑی نظر رکھنا کہ بُری صحبت میں گرفتار نہ ہوجائیں ، اس سلسلے میں انہیں نصیحت کرنا،دوست کے انتخاب کرنے کا فن سکھانا، قریب سے ان کے دوستوں کو پہچاننا اوران کے بارے میں معلومات رکھنا اور اس تعلق سے بالکل سستی نہ کرنا ۔ ان کے بعض پروگراموںمیں بنفس نفیس شریک ہونا اور انہیں پلاننگ کرنے کا طریقہ سکھانا ۔
(۳) نفس کا مجاہدہ اورمحاسبہ کرنا سکھائیں : انہیں بتائیں کہ بغیر ریاضت اور محنت کے بلندیا حاصل نہیں ہوتیں ،بڑے لوگوںکی کامیابی کا راز یہی ہے کہ انہوںنے بچپن سے ہی محنت کی اور وقت لگایا ،بلندیاں محنت وریاضت کی دین ہیں ۔ کہتے ہیں لولا المشقة ساد الناس کلھم ۔
ابوموسی اشعری ؒ روزہ رکھتے رکھتے خلال کی مانند ہوگئے تھے ۔ان سے کہا گیا کہ : کاش وقفہ کرلیتے ۔انہوںنے کہا : ھیھات انما یسبق من الخیل المضمرة ”تیرا بُرا ہو،گھوڑے میں سبقت وہی گھوڑا لے جاتا ہے جو چھریرے بدن کا ہوتا ہے ۔ “اسی لیے کہتے ہیں کہ جو راحت کا طالب ہو وہ راحت کو ترک کردیتا ہے ۔
امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ہرامت کے دانشمندوںکا اجماع ہے کہ نعمتیں نعمتوںمیں رہ کر حاصل نہیں کی جاسکتیں ،اور جس نے راحت کو ترجیح دی وہ راحت سے محروم ہوگیا ۔ (مفتاح دارالسعادة ص ۶۶۳)
امام مسلم نے اپنی صحیح میںیحییٰ بن کثیر کا یہ قول نقل کیا ہے : لایُنال العلم براحة الجسد۔انہیں سکھائیں کہ وہ اپنے روزانہ کے پروگراموں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہاں ان سے کیا کوتا ہی ہوئی ہے اور اس کی تلافی کیوںکر ممکن ہے ۔ ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کریں کہ مشکل سے مشکل کام کو کرنے کے لیے نفس کو تیار کرلیں ۔
(۴) عز م وارادہ کو نہ توڑیں : اللہ تعالی نے فرمایا: فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ”جب عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو“۔ حروب ردہ کے موقع سے حضرت عمر ؓ ابوبکر ؓ کے پاس آئے اورعرض کیا کہ لوگوںکے ساتھ نرمی کا معاملہ کریںتو آپ نے فرمایا: مجھے تیری مددکی امید تھی لیکن اپنی رسوائی لے کر آئے ہو،ا ¿جبارفی الجاھلیة وخوار فی الاسلام جاہلیت میں بلندہمت تھے ،اسلام لانے کے بعد ذلیل ہوگئے ،وحی منقطع ہوچکی اور دین مکمل ہوچکا ،کیامیرے جیتے جی اسلام میں کمی کی جائے گی ۔
(۵) بلندہمت لوگ اگرنادم ہوتے ہیں تو اس بات پر کہ ایک لمحہ ایسا گذرا جب وہ اللہ کا ذکر نہ کرسکے ۔عبداللہ بن عمر ؓ نمازجنازہ پڑھ کر لوٹ آتے تھے ۔جب انہیں یہ حدیث پہنچی کہ جس نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے کسی جنازے میں شرکت کی تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اورجو دفن تک رہا اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے ۔یوچھاگیا کہ دوقیراط سے کیامراد ہے ؟ آپ نے فرمایا: دو پہاڑوں کے مانند ۔ یہ سن کر ابن عمر ؓ کہنے لگے ”لقد فرطنا فی قراریط کثیرة “۔
اورخالد بن ولید ؓ بستر پر موت واقع ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں ”میں فلاں فلاں جنگ میں شریک رہا،میرے جسم کاشاید کوئی ایساحصہ نہ ہوگا جس پر تلوارکی چوٹ نہ لگی ہویا تیرنہ لگی ہو،ثم ھا انا ا ¿موت علی فراشی کمایموت البعیر ،فلانامت ا ¿عین الجبنا“۔
(۴) گھٹیا کاموںسے دور رہنے کی عادت ڈالیں : انہیں بتائیں کہ جو لوگ اعلی مقاصد رکھتے ہیں وہ گھٹیا اور معمولی کاموں میں نہیں لگتے بلکہ ان کی سوچ نہایت اعلی ہوتی ہے ۔ حضرت حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ان اللہ یحب معالی الامور وا ¿شرافھا ویکرہ سفسافھا(صحیح الجامع الصغیر) ”اللہ تعالی بلند اور اشرف کاموںکو پسند کرتا ہے اور گھٹیا کاموں کو ناپسند کرتا ہے ۔ “
اس لیے انہیں اعلی مقاصد پر مبنی کاموںمیں مشغول رکھیں اور گھٹیا کاموںسے دور رکھیں ۔ انہیں کمال کی زندگی سے بے نیازرکھیں ،ان کے اندر ہمیشہ اونچی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کریں ،کیونکہ جب آدمی اونچی سوچ پیدا کرتا ہے تو گھٹیا سوچ سے خودبخود دور ہوتا جاتا ہے ۔ امام شافعی ؒ نے بڑی پتے کی بات کہی ہے : اذا لم تشغل نفسک بالحق شغلتک بالباطل اگر تم اپنے نفس کو حق میں مشغول نہیں کرتے تو باطل میں خودبخود مشغول ہوجائے گا ۔
(۵) پلاننگ کرنے میں اس کی مدد کریں : بہترین پلاننگ کا بہترین نتیجہ نکلتا ہے ،اور ایک تجربہ کارمربی اس سلسلے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا ۔ اس کے مستقبل کے بارے میں خودپلاننگ کریں اوراسے پلاننگ کرنے کا گر سکھائیں ۔ اسے بتائیں کہ اپنی زندگی کے ہرمرحلہ کے لیے پلاننگ کرے ،بلکہ اس کے پاس ۴۲گھنٹے کے کاموں کی پہلے سے لسٹ ہو۔لمبی چھٹیاں آرہی ہوں تو ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے خاص پلاننگ کریں ۔ پلاننگ کرنے میں ان کا ساتھ دیں اور کچھ کاموںمیں خود ان کے ساتھ شریک رہیں ۔
(۶) خاندان کے مسائل میں انہیں شریک کریں : بچے کے اندر ہمت پیدا کرنے کے لیے خاندان کے مسائل کے اندر اسے شریک رنا چاہےے تاکہ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ وہ خاندان کا ایک فردہے اور اس کی رائے اور مشورے کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ گھر میں وقفہ وقفہ کے ساتھ خاندان کے مسائل پر گفتگو کی جائے ،خاندان میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے بچوں سے مشورہ کریں اور اس کو اہمیت دیں ۔اوراس سلسلے میں وہ جو بھی رول ادا کرسکتے ہوں بلا جھجھک ادا کرنے کی سہولت فراہم کریں ۔
(۷) اس کے ساتھ بیٹھ کراولوالعزموںاور بلند ہمت لوگوںکی زندگیوں کا مطالعہ کریں
ایسے لوگوںکی سیرت کا مطالعہ کرنے پر ابھاریں اور ساتھ ساتھ بسااوقات ایسی کتابیں ان کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں ،کھانے اورسونے کے اوقات کو امت کے سورماو ¿ں کے قصے اور واقعات بیان کرنے میں کام
میں لائیں ۔ سیرت نبوی ،انبیاءکے قصے ،اور صحابہ وتابعین کے قصوں کا مطالعہ کرنے پر اُبھاریں ۔ سورماو ¿ںکی زندگی پر بنائی گئی فلموں،ڈراماو ¿ںاورسیریز بھی اپنے گھر میں لائیں اور بسااوقات انہیں بچوںکودکھائیں ،اوربچوںکو ترغیب دلائیں کہ ان میں سے جن کو چاہیں اپنے لیے نمونہ بنائیں تاکہ ان کے جیسے خود کو ڈھال سکیں ۔
(۸) مقابلے کا جذبہ پیدا کریں اعلی مقاصد کے حصول کے لیے بچوںکے اندر مقابلے کا جذبہ پروان چڑھانا نہایت ناگزیر ہے ۔ اپنے بچوںاور اپنے آس پاس کے بچوںکے اندر مسابقت کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کریں کہ وہ اپنے سے اونچا کے ساتھ مسابقے میں حصہ لیں ،چھوٹے بڑے ہرطرح کے مقابلوںمیں شریک ہوں،ان کے اندرچیلنجز کو قبول کرنے کا جذبہ پیداکریں چاہیں بظاہر مشکل نظر آرہے ہوں۔اس کام کے لیے کچھ مادی ومعنوی انعامات رکھیں تاکہ بچے اس کے لیے خودکوتیار کرسکیں ۔
(۹) اپنی خفتہ صلاحیتوںکو نکھارنے کا طریقہ سکھائیں :
ہر انسان کے پاس ممکنہ صلاحیتیں ہوتی ہیںجو چھپی رہتی ہیں ،جس تک خود اس کی پہنچ نہیں ہوتی ۔ تاریخ کے ہردورمیں تخلیق کاروںنے اپنے دماغ کا صرف ۰۱ فیصد حصہ ہی استعمال کیا ہے ۔ اس لیے اپنے بچوںکو پورا موقع فراہم کریں کہ وہ اپنے ذاتی خوابوں کو شرمندہ ¿ تعبیر کرنے کی ہرممکنہ کوشش کریں ۔ خطرے کے باوجود چیلنجزکوقبول کرنے کی عادت ڈالیں اورانہیں بتائیں کہ اپنے بارے میں جیسا خیال کروگے ویسا ہی بنوگے ۔ اس لیے روزانہ اپنے کاموںکا جائزہ لینے کی تاکید کریں ،واقعہ یہ ہے کہ ہرانسان روزانہ اپنی طاقت سے کم ہی کوشش کرتا ہے ،اس لیے روزانہ اپنے نفس کو چست اور نشیط رکھنے کی ضرورت ہے ۔
(۰۱) تاخیراورٹال مٹول پرقابو پانے میں اس کی مددکریں :ٹال مٹول مقاصد کے حصول کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ،لہذا اپنے بچے کو وقت کی پابندی کا گر سکھائیں ،انہیں بتائیں کہ ہرکام کو ختم کرنے کا وقت خاص کرلیں ، انہیں سکھائیں کہ وہ اپنے آپ سے عہد کریں کہ ہرگز ٹال مٹول نہ کریں گے ۔ انہیں سکھائیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو ہمیشہ ذہن نشین رکھیں اور انہیں نوٹ کرلیا کریں تاکہ انہیں مکمل کرسکیں ۔ انہیں سکھائیں کہ کسی بھی کا م کے کرنے میں تردد نہ کریں اور فوراً ہاں یا نا کا فیصلہ لیں ۔

1 comment:

  1. ما شاء اللہ آپ کی تحریر بہت شاندار ہے

    ReplyDelete